Juraat:
2025-07-31@16:07:09 GMT

آئی سی سی ،کرکٹ کے لیے نئے قوانین کی منظوری

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

آئی سی سی ،کرکٹ کے لیے نئے قوانین کی منظوری

ون ڈے میچ کی اننگز میں 34اوورز تک 2گیندیں استعمال ہونگیں
متبادل کھلاڑیوں میں بیٹر،فاسٹ بولر،اسپنر،وکٹ کیپرشامل ہوگا

انٹر نیشنل کرکٹ کونسل نے نئے قوانین کی منظوری دیدی، جس کے تحت ون ڈے میچ کی اننگز میں 34اوورز تک 2 گیندیں استعمال ہوں گی۔آئی سی سی کے قوانین کے مطابق 35ویں سے 50ویں اوور تک ٹیم ایک ہی گیند استعمال کرے گی، پوری اننگز کے دوران 2گیندیں استعمال کرنے کا طریقہ کارختم کر دیا گیا۔ٹیسٹ میں کنکشن کیلئے متبادل کھلاڑیوں کا نام میچ سے پہلے دینا ہوگا، متبادل کھلاڑیوں کا نام پلیئنگ رول کے ساتھ دینا ہوگا، متبادل کھلاڑیوں میں بیٹر،فاسٹ بولر،سپنر،وکٹ کیپرشامل ہوگا۔خیال رہے ون ڈے
میں نئے قوانین کا اطلاق 2جولائی، ٹیسٹ میں 17جون سے ہوگا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: متبادل کھلاڑیوں

پڑھیں:

اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں: فرانس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ صدارت والی اقوام متحدہ کی تین روزہ کانفرنس کے آغاز پر فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے پیر کے روز کہا، ''صرف ایک سیاسی، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کی جائز خواہشات کا جواب دینے میں مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔

‘‘

کانفرنس سے کچھ دن قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ستمبر میں خود مختار فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے، جس پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی۔ اسرائیل اور امریکہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہیں۔

بارو نے کہا کہ دیگر مغربی ممالک بھی کانفرنس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کی تصدیق کریں گے، تاہم انہوں نے کسی مخصوص ملک کا نام نہیں لیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔

ژاں نوئل بارو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کا وقت آ چکا ہے، لیکن عالمی طاقتوں کو اپنے الفاظ کو عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا، ’’یورپی کمیشن کو یورپی یونین کی جانب سے اپنی توقعات واضح کرنا چاہییں اور یہ دکھانا چاہیے کہ ہم اسرائیلی حکومت کو اس مطالبے پر غور کرنے کے لیے کیسے قائل کر سکتے ہیں۔

‘‘

فرانس کو امید ہے کہ برطانیہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔ جمعے کو 200 سے زائد برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اس خیال کی حمایت کی، تاہم وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ’’ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔‘‘

فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ نے اجلاس کے آغاز پر کہا، ’’تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ اب عملی اقدام کریں۔

‘‘ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کی حمایت کا مطالبہ بھی کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ سے امیدیں

کانفرنس کے شریک صدر ملک سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پٹی کی جنگ ختم کرانے اور دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے میں ’’ایک محرک قوت‘‘ بن سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ریاض کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کوئی منصوبے نہیں ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اس تین روزہ کانفرنس کو ’’غیر نتیجہ خیز، غیر موزوں وقت پر‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک ''تشہیری حربہ‘‘ ہے جو امن کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ اسرائیلی’’بستیوں، زمینوں کی ضبطی، اور مقدس مقامات پر تجاوزات‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسرائیل اور امریکہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہیں، جب کہ اسرائیل پر قریب دو سال سے جاری غزہ پٹی کی جنگ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کی جانب سے ’’عارضی جنگ بندی‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن غزہ پٹی میں انسانی بحران کانفرنس میں تقاریر پر غالب رہے گا۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے کہا، ’’یہ کانفرنس کسی حل کو فروغ نہیں دیتی۔

‘‘ دو ریاستی حل کا امکان؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اس اجلاس میں کہا، ’’دو ریاستی حل پہلے سے کہیں زیادہ دور ہو چکا ہے۔‘‘

اے ایف پی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک اب اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جو 1988 میں جلاوطنی میں فلسطینی قیادت نے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سن انیس سو سینتالیس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت فلسطین (جو اُس وقت برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا) کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔

اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے بیک وقت وجود پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

تاہم غزہ پٹی میں 21 ماہ سے جاری جنگ، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے ارادوں کے باعث یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام جغرافیائی لحاظ سے ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔

کانفرنس کے ایجنڈے میں اور کیا ہے؟

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ، کانفرنس میں تین دیگر امور پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات، حماس کو غیر مسلح کرنا اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھی اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

تاہم ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے کے مطابق کانفرنس میں تعلقات کی بحالی یا قیام کے کسی نئے معاہدے کا اعلان متوقع نہیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب ’’فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان کبھی اتنا خطرے میں نہیں رہا اور کبھی اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں رہی۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • ویمنز ایونٹس میں شریک تمام ایتھلیٹس کیلیے جینڈر ٹیسٹ لازمی قرار
  • درآمدات اور اس کا متبادل اب ضروری ہے
  • سرکاری حج ساڑھے 11 لاکھ سے ساڑھے 12 لاکھ تک ہوگا، حج پالیسی 2026 منظور
  • پاکستان انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے سخت قوانین پر عمل پیرا ہے:صدر مملکت
  • پاکستان اسپورٹس بورڈ نے کھلاڑیوں کی مالی معاونت کیلئے نئے قوانین نافذ کردیے
  • آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں کن بھارتی اور انگلش کھلاڑیوں کی ترقی ہوئی؟
  • چین بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کو فوجی اتحاد مضبوط کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی مخالفت کرتا ہے، چینی وزارت خارجہ
  • اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں: فرانس
  • پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں مجوزہ 2 درجاتی نظام کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا
  • انگلینڈ بھارت ٹیسٹ کے دوران پاکستانی شائق کو شرٹ ڈھانپنے کی ہدایت