ایران خطے میں طاقت کا توازن بدل دے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر ایران یہ جنگ جیت جاتا ہے تو امریکہ کو خطے سے فوری نکلنا پڑے گا، اگر امریکہ نے علاقہ نہ چھوڑا تو ایران کیلئے ترنوالہ ثابت ہوگا اور ایران خطے میں امن کے قیام کیلئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ فی الحال تو امریکہ و ایران سفارتی آداب کے مطابق ایک دوسرے کیساتھ ڈیل کر رہے ہیں، لیکن ایران کی کامیابی کے بعد، فیصلہ ایران کرے گا کہ کون خطے میں رہے گا اور کس کا یہاں سے بوری بستر گول ہوگا۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
اسرائیل کی جانب سے ایران پر امریکی آشیرباد سے ہونیوالے حملے کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے اور ایرانی اسرائیل کو اچھا خاصا سبق سکھائیں گے۔ تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں پر میزائل حملوں کے بعد عالمی سطح پر تہران اور تل ابیب کے درمیان جنگ بندی کیلئے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ایران کے کامیاب میزائل حملوں کی بدولت امریکہ اور اسرائیل کا رویہ بھی بدل گیا ہے اور صدر ٹرمپ فریقین کے درمیان جنگ بندی کیلئے مختلف ممالک سے رابطہ اور ترلے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کا ایک مقصد یہ تھا کہ ایران کے نیوکلئیر پلانٹس کو تباہ کر دیا جائے۔ لیکن اس میں اسرائیل کو ناکامی ہوئی، کیونکہ یہ تنصیبات زمین کے اندر اتنی گہرائی میں ہیں کہ میزائل حملوں سے ان کو تباہ کرنا ممکن نہیں۔ حملوں کا دوسرا مقصد ایران میں نظام کی تبدیلی ہے، لیکن زبردست بات یہ ہے کہ ایرانی عوام نے صہیونی حکومت کے مقابلے میں متحد ہوکر حکومت کو سپورٹ کیا ہے، یہ ایرانیوں کی خوبی ہے کہ بیرونی حملے میں پوری قوم متحد ہو جاتی ہے اور اس جنگ میں بھی یہی ہوا ہے۔
اس اتحاد نے ہی اسرائیلی خواب چکنا چُور کر دیا ہے۔ اب ایران میں نظام کی تبدیلی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ایرانی عوام اپنی قیادت کیخلاف صہیونی حکام کی اپیلوں پر کان نہیں دھریں گے۔ اس کے برعکس اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کیخلاف عوامی بغاوت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اپوزیشن سمیت اسرائیلی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نتین یاہو نے ایران پر حملے میں پہل کرکے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اسرائیل کے بہت سے عوام اپنی جانیں بچا کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور جو اسرائیل میں رہ گئے ہیں، وہ سہمے ہوئے بنکروں میں محصور ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے حملہ کروایا ہے۔ ایران کیساتھ ڈیل کرنے سے پہلے پریشر کے طور یہ اقدام کروایا گیا ہے اور اس حوالے سے ایران کا ردعمل کیا ہوگا۔؟ امریکہ نے یہ بالکل ہی نہیں سوچا تھا۔
ایرانی بہادر قوم ہے اور اسرائیل کو زبردست سبق سکھائیں گے۔ اسرائیلی حملے کے بعد ایران کو اب جواز مل گیا ہے اور اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور پابندیاں ہٹانے کے وعدے کی خلاف ورزی کے بعد ایران این پی ٹی سے بھی نکل سکتا ہے۔ جنگ بندی کیلئے علاقائی سطح پر کوششوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو خطے کے ممالک سے کوئی توقع نہیں۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ خلیج فارس کے ممالک کے دورے کے دوران ایسے لگ رہا تھا کہ اصل بادشاہ ٹرمپ ہے۔ وہ نہ سیاستدان ہے، نہ سفارتکار، وہ ایک بزنس مین اور جواری ہے، جو جہاں اپنا فائدہ دیکھے وہیں بیٹھ جاتا ہے۔ اس لئے ٹرمپ پر کسی بھی لحاظ سے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ خطے کے عرب شہزادوں سے کسی قسم کی توقع نہیں۔ ایران کے بھرپور جوابی حملے کے بعد صدر ٹرمپ کا لب و لہجہ بدل گیا ہے اور وہ ڈپلومیسی اور جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں۔
چین اور روس کی طرف سے اقدامات کے اشارے مل رہے ہیں اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکی پٹھو ممالک بھی سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل پر زور دے رہے ہیں، کیوںکہ اسرائیل کا کافی نقصان ہو رہا ہے اور اس کے مضبوط دفاعی نظام اور اسلحہ کا زعم خاک میں مل رہا ہے۔ ایرانی ہر جگہ حملہ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے بھانپ لیا ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس سسٹم زیادہ دیر تک مقاومت نہیں کرسکتا ہے۔ یہ سوال کہ جنگ جاری رہنے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر حملوں کا سلسلہ مزید جاری رہا تو دنیا میں تیل کا بحران پیدا ہوگا، جس سے یورپ، جاپان اور چین جیسے ممالک میں معاشی بھونچال آسکتا ہے۔ اسرائیل سے ایران ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو بھی خطرہ ہے۔ ہمارے لوگ اس حوالے سے مسلسل تیاری میں ہوں گے اور ہم کوئی چانس نہیں لیں گے۔ اس وقت مل کر اسرائیل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام دل و جان سے ایران کیساتھ ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی ایران کیساتھ کھل کر یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی واضح خطرہ ہے۔ جس کا سدباب ایران پاکستان اتحاد سے مکمن ہے۔
اگر اس محاذ پر پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر دفاعی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اسرائیل کو وہیں روکا جا سکتا ہے۔ اس جنگ میں خدانخواستہ ایران کو شکست ہوتی ہے تو یہ آگ بلا تاخیر پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر نتین یاہو کی ایک پرانی ویڈیو دوبارہ وائرل ہو رہی ہے، جس میں وہ پاکستان کو بھی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ دوسری جانب ایران کے ہمسایہ عرب ممالک اور افغان بھی ایران کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ایران کی سیاسی حمایت، اسرائیل اور امریکہ کو تنہا کر دے گی، اس سے مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثرورسوخ بڑھے گا اور امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ اگر ایران یہ جنگ جیت جاتا ہے تو امریکہ کو خطے سے فوری نکلنا پڑے گا، اگر امریکہ نے علاقہ نہ چھوڑا تو ایران کیلئے ترنوالہ ثابت ہوگا اور ایران خطے میں امن کے قیام کیلئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ فی الحال تو امریکہ و ایران سفارتی آداب کے مطابق ایک دوسرے کیساتھ ڈیل کر رہے ہیں، لیکن ایران کی کامیابی کے بعد، فیصلہ ایران کرے گا کہ کون خطے میں رہے گا اور کس کا یہاں سے بوری بستر گول ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی کی اسرائیل کو کر رہے ہیں گیا ہے اور اور ایران امریکہ نے تو امریکہ ہے اور اس سے ایران ایران کے ایران کی سکتا ہے کے بعد گا اور رہا ہے
پڑھیں:
ہم اب بھی یورینیم افزودہ کرنیکی صلاحیت رکھتے ہیں، سید عباس عراقچی
اپنے ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب تک ڈونلڈ ٹرامپ ہم سے یورینیم کی مکمل افزودگی بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس وقت تک کوئی معاہدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے امریکہ و اسرائیل کی ایران کے خلاف مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے بعد فنانشیل ٹائمز کے ساتھ گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے صیہونی و امریکی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ذکر کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ایران، گزشتہ مہینے ہونے والی جنگ میں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ چاہتا ہے اور امریکہ کو چاہئے کہ وہ 12 روزہ جنگ میں ایران کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو جواب دینا چاہئے کہ مذاکرات کے دوران ہم پر حملہ کیوں کیا؟۔ انہیں اس بات کی بھی یقین دہانی کرانی چاہئے کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ کے دوران اور بعد میں، میرے اور امریکی نمائندے "اسٹیون ویٹکاف" کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایران کے جوہری بحران کا کوئی درمیانی حل تلاش کرنا چاہئے۔ بات چیت کا راستہ دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیون ویٹکاف نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی اور دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی۔ لیکن ہمیں ان کی جانب سے اعتماد بڑھانے کے لئے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں مالی معاوضے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت بھی شامل ہو کہ مذاکرات کے دوران دوبارہ ایران پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا پیغام پیچیدہ نہیں۔ حالیہ حملے نے ثابت کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کا کوئی فوجی حل نہیں۔ تاہم مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنے پُرامن اور غیر فوجی جوہری پروگرام پر قائم ہے۔ ہم اس پروگرام کے حوالے سے اپنی آئیڈیالوجی تبدیل نہیں کرے گیں۔ جس کی بنیاد رہبر معظم آیت اللہ "سید علی خامنہ ای" کے 20 سالہ پُرانے فتوے پر ہے، جس میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو حرام قرار دیا۔ سید عباس عراقچی نے مزید کہا کہ جنگ نے امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے بارے میں عدم اعتماد کو بڑھا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرامپ نے 2015ء میں اپنے پہلے دور صدارت میں بھی ایرانی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا، جو ایران نے "باراک اوباما" کی حکومت اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایران اب بھی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عمارتیں دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ مشینیں تبدیل کی جا سکتی ہیں کیونکہ اس کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہمارے پاس بڑی تعداد میں سائنسدان اور ٹیکنیشن ہیں جو پہلے بھی ان تنصیبات پر کام کر چکے ہیں۔ اب یہ حالات پر منحصر ہے کہ ہم کب اور کیسے افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرتے ہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک ڈونلڈ ٹرامپ ہم سے یورینیم کی مکمل افزودگی بند کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس وقت تک کوئی معاہدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر واشنگٹن کو ہمارے بارے میں کوئی خدشات ہیں تو وہ انہیں مذاکرات کے ذریعے پیش کر سکتا ہے۔ آخر میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بات چیت کر سکتے ہیں، وہ اپنے دلائل دے سکتے ہیں اور ہم بھی انہیں اپنے دلائل دیں گے۔ لیکن اگر افزودگی بالکل بند کر دی جائے تو ہمارے پاس بات کرنے کو کچھ باقی نہیں بچے گا۔