Islam Times:
2025-09-18@13:54:54 GMT

ایران خطے میں طاقت کا توازن بدل دے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

ایران خطے میں طاقت کا توازن بدل دے گا؟

اسلام ٹائمز: اگر ایران یہ جنگ جیت جاتا ہے تو امریکہ کو خطے سے فوری نکلنا پڑے گا، اگر امریکہ نے علاقہ نہ چھوڑا تو ایران کیلئے ترنوالہ ثابت ہوگا اور ایران خطے میں امن کے قیام کیلئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ فی الحال تو امریکہ و ایران سفارتی آداب کے مطابق ایک دوسرے کیساتھ ڈیل کر رہے ہیں، لیکن ایران کی کامیابی کے بعد، فیصلہ ایران کرے گا کہ کون خطے میں رہے گا اور کس کا یہاں سے بوری بستر گول ہوگا۔ تحریر: تصور حسین شہزاد

اسرائیل کی جانب سے ایران پر امریکی آشیرباد سے ہونیوالے حملے کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے اور ایرانی اسرائیل کو اچھا خاصا سبق سکھائیں گے۔ تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں پر میزائل حملوں کے بعد عالمی سطح پر تہران اور تل ابیب کے درمیان جنگ بندی کیلئے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ایران کے کامیاب میزائل حملوں کی بدولت امریکہ اور اسرائیل کا رویہ بھی بدل گیا ہے اور صدر ٹرمپ فریقین کے درمیان جنگ بندی کیلئے مختلف ممالک سے رابطہ اور ترلے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کا ایک مقصد یہ تھا کہ ایران کے نیوکلئیر پلانٹس کو تباہ کر دیا جائے۔ لیکن اس میں اسرائیل کو ناکامی ہوئی، کیونکہ یہ تنصیبات زمین کے اندر اتنی گہرائی میں ہیں کہ میزائل حملوں سے ان کو تباہ کرنا ممکن نہیں۔ حملوں کا دوسرا مقصد ایران میں نظام کی تبدیلی ہے، لیکن زبردست بات یہ ہے کہ ایرانی عوام نے صہیونی حکومت کے مقابلے میں متحد ہوکر حکومت کو سپورٹ کیا ہے، یہ ایرانیوں کی خوبی ہے کہ بیرونی حملے میں پوری قوم متحد ہو جاتی ہے اور اس جنگ میں بھی یہی ہوا ہے۔

اس اتحاد نے ہی اسرائیلی خواب چکنا چُور کر دیا ہے۔ اب ایران میں نظام کی تبدیلی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ایرانی عوام اپنی قیادت کیخلاف صہیونی حکام کی اپیلوں پر کان نہیں دھریں گے۔ اس کے برعکس اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کیخلاف عوامی بغاوت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اپوزیشن سمیت اسرائیلی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نتین یاہو نے ایران پر حملے میں پہل کرکے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اسرائیل کے بہت سے عوام اپنی جانیں بچا کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور جو اسرائیل میں رہ گئے ہیں، وہ سہمے ہوئے بنکروں میں محصور ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے حملہ کروایا ہے۔ ایران کیساتھ ڈیل کرنے سے پہلے پریشر کے طور یہ اقدام کروایا گیا ہے اور اس حوالے سے ایران کا ردعمل کیا ہوگا۔؟ امریکہ نے یہ بالکل ہی نہیں سوچا تھا۔

ایرانی بہادر قوم ہے اور اسرائیل کو زبردست سبق سکھائیں گے۔ اسرائیلی حملے کے بعد ایران کو اب جواز مل گیا ہے اور اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی اور پابندیاں ہٹانے کے وعدے کی خلاف ورزی کے بعد ایران این پی ٹی سے بھی نکل سکتا ہے۔ جنگ بندی کیلئے علاقائی سطح پر کوششوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو خطے کے ممالک سے کوئی توقع نہیں۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ خلیج فارس کے ممالک کے دورے کے دوران ایسے لگ رہا تھا کہ اصل بادشاہ ٹرمپ ہے۔ وہ نہ سیاستدان ہے، نہ سفارتکار، وہ ایک بزنس مین اور جواری ہے، جو جہاں اپنا فائدہ دیکھے وہیں بیٹھ جاتا ہے۔ اس لئے ٹرمپ پر کسی بھی لحاظ سے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ خطے کے عرب شہزادوں سے کسی قسم کی توقع نہیں۔ ایران کے بھرپور جوابی حملے کے بعد صدر ٹرمپ کا لب و لہجہ بدل گیا ہے اور وہ ڈپلومیسی اور جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں۔

چین اور روس کی طرف سے اقدامات کے اشارے مل رہے ہیں اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکی پٹھو ممالک بھی سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل پر زور دے رہے ہیں، کیوںکہ اسرائیل کا کافی نقصان ہو رہا ہے اور اس کے مضبوط دفاعی نظام اور اسلحہ کا زعم خاک میں مل رہا ہے۔ ایرانی ہر جگہ حملہ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے بھانپ لیا ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس سسٹم زیادہ دیر تک مقاومت نہیں کرسکتا ہے۔ یہ سوال کہ جنگ جاری رہنے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر حملوں کا سلسلہ مزید جاری رہا تو دنیا میں تیل کا بحران پیدا ہوگا، جس سے یورپ، جاپان اور چین جیسے ممالک میں معاشی بھونچال آسکتا ہے۔ اسرائیل سے ایران ہی نہیں، بلکہ پاکستان کو بھی خطرہ ہے۔ ہمارے لوگ اس حوالے سے مسلسل تیاری میں ہوں گے اور ہم کوئی چانس نہیں لیں گے۔ اس وقت مل کر اسرائیل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام دل و جان سے ایران کیساتھ ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی ایران کیساتھ کھل کر یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی واضح خطرہ ہے۔ جس کا سدباب ایران پاکستان اتحاد سے مکمن ہے۔

اگر اس محاذ پر پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر دفاعی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اسرائیل کو وہیں روکا جا سکتا ہے۔ اس جنگ میں خدانخواستہ ایران کو شکست ہوتی ہے تو یہ آگ بلا تاخیر پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر نتین یاہو کی ایک پرانی ویڈیو دوبارہ وائرل ہو رہی ہے، جس میں وہ پاکستان کو بھی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ دوسری جانب ایران کے ہمسایہ عرب ممالک اور افغان بھی ایران کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ایران کی سیاسی حمایت، اسرائیل اور امریکہ کو تنہا کر دے گی، اس سے مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثرورسوخ بڑھے گا اور امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ اگر ایران یہ جنگ جیت جاتا ہے تو امریکہ کو خطے سے فوری نکلنا پڑے گا، اگر امریکہ نے علاقہ نہ چھوڑا تو ایران کیلئے ترنوالہ ثابت ہوگا اور ایران خطے میں امن کے قیام کیلئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ فی الحال تو امریکہ و ایران سفارتی آداب کے مطابق ایک دوسرے کیساتھ ڈیل کر رہے ہیں، لیکن ایران کی کامیابی کے بعد، فیصلہ ایران کرے گا کہ کون خطے میں رہے گا اور کس کا یہاں سے بوری بستر گول ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جنگ بندی کی اسرائیل کو کر رہے ہیں گیا ہے اور اور ایران امریکہ نے تو امریکہ ہے اور اس سے ایران ایران کے ایران کی سکتا ہے کے بعد گا اور رہا ہے

پڑھیں:

امریکی انخلا ایک دھوکہ

اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔

امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔

امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے  "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔

وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔

آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف کی ملاقات، پاکستان کی سمندری حدود کی نگرانی اور خطے میں بحری توازن برقرار رکھنے میں پاک بحریہ کا اہم کردار ہے ، وزیراعظم
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • عرب جذبے کے انتظار میں