چنیسر ٹائون کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے‘سیف الدین
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)اپوزیشن لیڈر کے ایم سی ونائب امیر جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ نے چنیسر ٹائون کی 3یوسیز کے چیئر مینوں اور ٹائون میں آنے والی مارکیٹوں ، تاجر تنظیموں کے عہدیداران کے ساتھ چنیسر ٹائون آفس سندھی مسلم سوسائٹیپر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ چنیسر ٹائون کے چیئر مین فرحان غنی کی جانب سے رہائشی و تجارتی املاک اور ٹریڈ لائسنس فیس میں من مانہ اضافہ فی الفور واپس لیا جائے ، من پسند افراد کو ٹھیکے دینے اور ترقیاتی کاموں میں امتیازی سلوک ختم اور چنیسر ٹائون کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے ، وزیر بلدیات سعید غنی کے ماتحت چلنے والے ہر محکمے میں کرپشن و نا اہلی انتہا پر پہنچ چکی ہے ، وزیر بلدیات مستعفی ہوں ، ہم متنبہ کردینا چاہتے ہیں کہ اگر ٹیکسوں کے نفاذ کا فیصلہ واپس اور 3یوسیز کے ساتھ تعصب و امتیازی سلوک ختم نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی بھر پور احتجاج کرے گی اور کراچی کو نظر انداز کرنے پر سندھ حکومت کے خلاف شروع کی جانے والی احتجاجی تحریک کا آغاز چنیسر ٹائون سے ہی کیا جائے گا ۔پریس کانفرنس میں امیر ضلع قائدین انجینئر عبد العزیز ،اپوزیشن لیڈر چنیسر ٹاؤن محمد یونس ،چیئرمین یوسی 3 چنیسر ٹاؤن شاہد فرمان ،ایکٹنگ چیئرمین یوسی2 چنیسر ٹاؤن محمد بلال باقی ،وائس چیئر مین یوسی 3 چنیسر ٹاؤن فراز آفریدی ،یوتھ کونسلر کے ایم سی تیمور احمد ،نائب صدر طارق روڈ ٹریڈ ویلفیئر ایسو سی ایشن اعظم طارق ، نرسری فرنیچر مارکیٹ کے آفاق ایوب، محمد مجاہد،شیخ خرم ،صدر پبلک ایڈ کمیٹی چنیسر ٹاؤن غیاث عباسی و دیگر موجود تھے ۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے مزیدکہا کہ پیپلز پارٹی نے میئر شپ پر قبضے کی طرح چنیسر ٹائون میں بھی اپنا چیئر مین زبردستی مسلط کیا ہے ، ہماری 2 جیتی ہوئی یوسی چھین کر وزیر بلدیات کے بھائی کو ٹائون کا چیئر مین بنوایا گیا جن کی نہ صرف کارکردگی انتہائی بدترین ہے بلکہ جن یوسیز میں ان کے چیئر مین نہیں ہیں ان کے ساتھ اور وہاں کے مکینوں کے ساتھ بدترین تعصب اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ، وزیر بلدیات کی سرپرستی میں نا اہلی و کرپشن کی جارہی ہے ، حال ہی میں 50کروڑ روپے کا ٹھیکا ان کے بھائی فرحان غنی کو دیا گیا ہے جبکہ اسی علاقے کے ایم این اے کو بھی ایک ارب روپے کے ٹھیکے سے نوازا گیا ہے اور یہ دونوں ٹھیکے ان علاقوں کے لیے ہیں جو سعید غنی کا صوبائی حلقہ انتخاب ہے ، ٹائون کی دیگر یوسی میں کوئی کام نہیں کرائے جا رہے ، سڑکیں اور برساتی نالے ٹوٹے ہوئے ہیں ، گٹر اُبل رہے ہیں اور جگہ جگہ کچرا کنڈیاں بنی ہوئی ہیں ، مکینوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں لیکن ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں ، 3یوسیز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان یوسیز کے سینیٹری ورکرز کو بھی واپس لے کر ٹیکس اور پارکوں کے عملے کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کے ساتھ صوبہ سندھ اور وفاق دونوں یکساں سلوک کر رہے ہیں ، اہل کراچی کی حق تلفی اور عوامی مسائل سے پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور ایم کیو ایم کسی کو کوئی سرو کار نہیں ، وفاقی و صوبائی حکومتیںو حکمران پارٹیاں کراچی دشمنی میں ایک ہیں ، پانی کراچی کے عوام کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور 18سال ہوگئے کے فور منصوبہ مکمل نہیں ہوا ، حالیہ بجٹ میں بھی وفاق نے صرف 3.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وزیر بلدیات چنیسر ٹائون چنیسر ٹاؤن سیف الدین چیئر مین کے ساتھ کیا جا گیا ہے
پڑھیں:
سندھ کا بجٹ 2025-26
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ پاکستان کا انتظامی لحاظ سے بدترین صوبہ ہے، یہاں سڑکوں سے اسپتالوں اور اسکولوں تک صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے پیش کیا گیا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ بظاہر اعداد و شمار کی چمک دمک سے مزین ہے، لیکن حقیقت میں یہ بجٹ عوامی امنگوں سے کوسوں دور، مخصوص طبقات کو خوش کرنے اور دکھاوے پر مبنی ایک روایتی مشق ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صرف اخباری خبروں تک محدود رہے گا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بجٹ میں تعلیم، صحت، پنشن، ترقیاتی منصوبوں، اور فلاحی اسکیموں کا خوب چرچا کیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 12.4 فی صد اضافے کا اعلان ضرور کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری، بچوں کی شرح خواندگی اور انفرا اسٹرکچر کی حالت بہتر ہوئی؟ کیا یہ فنڈز بھی سابقہ ادوار کی طرح کرپشن اور اقربا پروری کی نذر نہیں ہو جائیں گے؟ اسی طرح صحت کے لیے 326 ارب روپے رکھنا بظاہر خوش آئند ہے، مگر جب اسپتالوں میں ایک بستر پر دو مریض لیٹے ہوں، اور دور دراز علاقوں میں بنیادی طبی سہولت تک میسر نہ ہو تو یہ اعلانات محض اعداد وشمار کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ کراچی، جو ملک کا معاشی دارالحکومت ہے اور سندھ کے بجٹ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، ایک بار پھر نظرانداز ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ ’’یہ بجٹ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے‘‘۔ کراچی کے لیے کوئی بڑا میگا پروجیکٹ شامل نہ کرنا، K-4 جیسے پانی کے منصوبے کو پھر سے نظر انداز کرنا، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا صرف ذکر کرنا، سب حکومتی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناانصافی کراچی کے ساتھ برسوں سے جاری ہے، اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ تینوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ پیپلز پارٹی جو پچھلے کئی عشروں سے سندھ میں اقتدار پر قابض ہے، اس نے قبضہ کرکے اور یرغمال بنا کر عوام کو صرف غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور کرپشن کا تحفہ دیا ہے۔ دیہی سندھ میں زرعی معیشت کو تباہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو کبھی وقت پر پانی ملا، نہ کھاد اور نہ ہی ان کی پیداوار کی قیمت۔ شہری سندھ، بالخصوص کراچی، جس سے حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس ملتا ہے، مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی حالت زار، سیوریج کا نظام، سڑکوں کی تباہی، کچرے کا ڈھیر، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کو جان بوجھ کر تنہا چھوڑا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی فنڈز کے استعمال نے کراچی کے نوجوانوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اقتدار میں آ کر صرف اپنے قریبی حلقے کو نوازا گیا، یہ طرزِ حکمرانی سراسر استحصالی ہے جس کا خمیازہ سندھ کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ بجٹ میں 4400 اساتذہ اور عملے کی بھرتی کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس میں میرٹ اور شفافیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہاں لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں اس سے قبل کے برسوں کے بجٹ کا کیا ہوا اور کون سی تبدیلی عوام کو دیکھنے کو ملی ہے۔ ترقیاتی منصوبے 520 ارب روپے تک محدود کیے گئے، جو کہ سندھ جیسے پسماندہ صوبے کے لیے نہایت ناکافی ہیں، خاص طور پر جب ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور وزراء کی مراعات پر خرچ ہو رہے ہوں۔ حکومت کی جانب سے 5 محصولات ختم کرنے اور کسانوں کو سبسڈی دینے جیسے اقدامات کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن ان اقدامات کے عملی اطلاق پر شدید سوالات موجود ہیں۔ سابقہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اقدامات بھی نعرے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت پر تنقید کر رہی ہے، وہی وفاقی حکومت میں شامل ہوکر وفاقی بجٹ کا دفاع کرتی ہے جس میں کراچی کو بھی مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اس دوغلی سیاست سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ بجٹ سندھ کے متوسط اور غریب طبقے کے لیے کسی ریلیف کا باعث نہیں، بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کا تسلسل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسے بنیادی مسائل بدستور حل طلب ہیں، اور حکومت ان پر سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سندھ کے عوام اس بجٹ کے دھوکے کو پہچانیں، اور اپنے حق کے لیے مزاحمت کریں اور اپنی طاقت سے ایسی حکمرانی کو مسترد کریں جو صرف اپنے مفادات کی نگہبان ہو، نہ کہ عوام کی خیرخواہ ہو۔