جی7 اجلاس،ٹرمپ کا مودی سے ملاقات سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اوٹاوا:جی 7 اجلاس میں مودی سرکار کو سفارتی محاذ پر شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ٹرمپ نے بھارتی انتہا پسند وزیراعظم سے ملاقات سے انکار کردیا۔
کینیڈا میں منعقدہ جی 7 اجلاس نے بھارت کی عالمی سفارتی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ اجلاس میں شریک دنیا کے بااثر ممالک کے سربراہان کی موجودگی کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی غیر موجودگی نمایاں رہی جبکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اجلاس کی کوریج میں بھارت کے پرچم اور نام کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔
جی 7 اجلاس میں بھارت کو مدعو کرنا محض رسمی کارروائی تک محدود رہا، جبکہ بھارت کے جارحانہ رویے اور بین الاقوامی سطح پر غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے باعث اسے کسی فعال کردار میں پیش نہ کیا گیا۔
اس اجلاس سے قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ مودی کی کوششوں کے باوجود ٹرمپ نے اجلاس کے دوران ان سے ملاقات سے انکار کر دیا، جسے بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے ایک اہم سفارتی پیغام قرار دیا ہے۔
مودی کی سفارتی ناکامی پر بھارت کے اندر سے بھی تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ آل انڈیا ترنمول کانگریس کے رہنما جواہر سرکار نے مودی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا، ”مودی اجلاس میں پہنچے ہی تھے کہ ٹرمپ روانہ ہو گئے، یہ محض اتفاق نہیں لگتا۔“دوسری جانب بھارتی میڈیا بھی مایوسی اور غصے کا شکار نظر آیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جی 7 اجلاس میں مودی کو نظر انداز کیے جانے سے نہ صرف بھارت کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی ہے بلکہ مودی کی قیادت میں بھارت کی خارجہ پالیسی کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اجلاس میں سے ملاقات جی 7 اجلاس مودی کی
پڑھیں:
مودی سرکارکی رسوائی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ شکست خوردہ بھارت کو اقوام عالم میں ذلت آمیز رسوائی کا سامنا ہے، امریکی صدر جب کہتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ ہم نے رکوائی تو مودی کے زخم دوبارہ تازہ ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
دوسری جانب بھارتی پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے دوران بی جے پی کو اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید اور سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اجلاس میں پہلگام حملے، رافیل طیاروں کے گرنے اور متنازعہ ’آپریشن مہادیو‘ جیسے اہم امور نمایاں رہے، مودی حکومت کٹہرے میں کھڑی نظر آئی۔ بھارتی وزیراعظم طیارے گرنے پر ایک لفظ نہ بول سکے۔
آپریشن سندور میں بھارت کی شکست پر لوک سبھا میں جو سوالات اٹھائے گئے، ان کا وزیراعظم مودی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ بلاشبہ بھارتی لوک سبھا میں آپریشن سندور کے نقصانات پر سوالات پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ بھارتی بیانیے کو پوری دنیا میں سبکی کا سامنا ہے اور اس جنگ کے بعد بھارتی عوام کی مودی سرکار سے ناراضی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کو اس جنگ میں ناکامی حاصل ہوئی ہے۔
بلا شک و شبہ حالیہ پاک، بھارت جنگ نے بھارتی ریاست کے علاقائی حاکمیت کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ بھارت شاید اس حملے سے دنیا خصوصاً ہمسایہ ممالک کو باورکرانا چاہتا تھا کہ وہ بلا شرکت غیرے اس خطے کی سپر پاور ہے، لیکن پاک، بھارت جنگ میں 10 مئی کو بھارت کی فرضی برتری کا خود ساختہ بت پاش پاش ہوا اور غرور خاک میں مل گیا۔
اس شکست کے بعد بھارت بخوبی جانتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ طاقت۔ بھارت اب نئے محاذ پر متحرک ہے۔ بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ فرضی برتری کے خول سے باہر نکل کر حقیقت کا سامنا کرتا، اپنی ناکام جنگی حکمت عملی اور پالیسیوں کا جائزہ لیتا مگر بھارت دو محاذوں پر متحرک ہوا ہے۔ ایک طرف سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کی خلاف اپنے مذموم ایجنڈے کو پھیلانے میں مصروف ہے، دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا بیانیہ پیش کرنے کے لیے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے 45 پارلیمانی اراکین پر مشتمل سات مختلف وفود تشکیل دیے ہیں۔ ان وفود کو دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ان وفود کی اہم ذمے داریوں میں پاکستان کے خلاف بھارتی نقطہ نظر کو عالمی سطح پر پیش کرنا شامل تھا خصوصاً 10 مئی کے واقعات کے تناظر میں پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات کو اُجاگر کرنا۔ یہ وفود بھارت کے آپریشن سندور کے بارے میں عالمی برادری کو بریفنگ دیتے رہے تاکہ بھارتی اقدامات کو جائز ثابت کیا جا سکے۔
ان کا مقصد مختلف ممالک کی حکومتوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ساتھ ملاقاتیں کر کے بھارتی نقطہ نظر پر عالمی حمایت حاصل کرنا تھا جس میں پاکستان پر مزید پابندیاں لگوانے کی کوشش بھی شامل تھی، بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے پاکستان کا نام دوبارہ گرے لسٹ میں ڈلوانا۔ یہ وفود امریکا، یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت تقریباً 32ممالک کے دورے پر گئے تھے۔ اس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین بھی شامل تھے جب کہ 70 ممالک کے اتاشیوں کے سامنے بھی اپنی صفائی پیش کی گئی تاکہ جنگی محاذ پر ہونے والے نقصانات کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کیا جا سکے اور اس پر دباؤ بڑھایا جا سکے، لیکن بھارت عالمی برادری میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید دور کی جنگیں صرف میدان میں نہیں، بلکہ دماغوں میں بھی لڑی جاتی ہیں۔ اس بار جنگ صرف سرحدوں تک محدود نہ رہی بلکہ ایک نیا محاذ کھلا جو اطلاعات، بیانیے اور سچ و جھوٹ کی جنگ کا محاذ تھا۔ اس میدان میں پاکستان نے نہایت مہارت، سنجیدگی اور پیشہ ورانہ تدبر کے ساتھ جو معرکہ سر کیا، وہ کسی بھی جدید ریاست کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاک، بھارت حالیہ جارحیت سے متعلق دنیا اعتراف کر چکی ہے کہ یہ جنگ پاکستان واضح برتری سے جیتا، چاہے فضائی محاذ ہو یا الیکٹرانک وار فئیر، چاہے سائبر وار فئیر ہو یا انفارمیشن وار فیئر یا پھر سفارتی محاذ پاکستان نے تمام محاذوں پر بھارت کو شکست دی۔ پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے جن میں رافیل جیسے دور حاضر کے بہترین جنگی طیارے بھی شامل تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بار محض روایتی میڈیا ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی میدانِ جنگ بن چکا تھا۔
بھارت نے فیک نیوز، جعلی وڈیوز اور جھوٹے بیانات کی مدد سے ایک خیالی فتح کا ماحول بنانے کی کوشش کی مگر پاکستانی نوجوانوں، یوٹیوبرز، بلاگرز اور صحافیوں نے اپنی رضا کارانہ کاوشوں سے اس پروپیگنڈے کو ہر محاذ پر چیلنج کیا۔ بغیر کسی رسمی تنظیم کے ان عام پاکستانی نوجوانوں نے ڈیجیٹل دنیا میں ایسا دفاعی مورچہ قائم کیا جو جدید سائبر وار کی عملی تصویر بن گیا۔ ٹوئٹر سے لے کر یوٹیوب تک پاکستانی موقف، دلیل، ثبوت اور زبان و بیان کی طاقت سے غالب رہا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے پہلی بار پرو ایکٹو اسٹرٹیجی اختیار کی۔
دشمن کے دعوؤں کا انتظار کرنے کے بجائے، خود آگے بڑھ کر مستند معلومات، سیٹلائٹ امیجز، جیو لوکیشن وڈیوز اور موقع کی تصاویر پیش کی گئیں جس سے پاکستان کا بیانیہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی معتبر ٹھہرا۔ بین الاقوامی میڈیا ادارے جیسے فنانشل ٹائمز اور نیویارک میگزین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بھارت کی اطلاعاتی حکمت عملی کئی جگہوں پر کمزور اور ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئی۔
اس پوری اطلاعاتی جنگ میں پاکستان نے ایک اور کامیابی ’’ سائبر اسپیس‘‘ میں حاصل کی۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ مستقبل کی جنگیں اسی طرز پر ہوں گی جہاں بندوقوں سے پہلے بیانیے چلیں گے اور گولے داغنے سے پہلے خبریں نشر ہوں گی۔ ایسے میں پاکستان نے جو ماڈل اس بار پیش کیا وہ محض ایک وقتی کامیابی نہیں بلکہ مستقبل کی جنگی حکمت عملی کا بنیادی خاکہ ہے۔ سچائی، بروقت ردعمل، پیشہ ور ترجمان، متحد قوم اور بااعتماد ادارے ہی یہی وہ عناصر ہیں جو ہر جھوٹے پروپیگنڈے کو شکست دے سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رُکن ہے، بطور رُکن، پاکستان نے ہر اہم موقع پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا، چاہے غزہ کا معاملہ ہو یا پھر ایران، اسرائیل جنگ۔ ماہ جون میں پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کا نائب چیئرمین اور طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے قائم نگران کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ بظاہر یہ معمول کی تعیناتیاں ہیں۔ مگر ان تعیناتیوں پر بھارتی ریاست سیخ پا ہے۔ یقینی طور پر یہ تعیناتیاں بھارتی ریاست کی پاکستان کے خلاف دہشگردوں کی سہولت کاری کے الزامات کو مسترد کیا جانا ہے وہیں پر دہشتگردی کے خلاف پاکستانی ریاست کے غیر متزلزل اقدامات کو پوری دنیا کی جانب سے تسلیم کیا جانا بھی ہے۔
عالمی میڈیا میں پاکستان کا بیانیہ چھا گیا ہے اور بھارت کا دہشت گردی کا شور عالمی سطح پر مسترد کر دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے بھارت کو مزید تنہا کر دیا ہے اور دونوں ممالک کو برابر درجہ دے کر دہلی کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ صرف 10 ارب ڈالر کی تجارت کے باوجود اسے عالمی اہمیت دی۔ دنیا نے بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کو مسترد کر دیا ہے اور پاکستان نے اپنے ٹھوس ثبوتوں سے دنیا کو قائل کر لیا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، پاکستان نے امریکا کی ثالثی کو خوش دلی سے قبول کیا جب کہ بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ چین، ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے جس کے باعث بھارت تنہا ہوگیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت جنگ کے میدان میں بھی ناکام رہا اور سفارتی محاذ پر بھی تنہا دکھائی دے رہا ہے۔
امریکا کی مداخلت نے بھارت کے علاقائی لیڈر بننے کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے جب کہ پاکستان کی پرامن اور ذمے دار سفارت کاری نے عالمی سطح پر ایک مثبت تاثر قائم کیا ہے۔پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بے مثال کامیابی حاصل کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی دونوں مشکل میں ہیں۔