تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی کردی گئی۔ اس دفعہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 39.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال اس مد میں 65 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں کمی کا فخر کے ساتھ اعلان کیا۔ وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ خوش خبری سنائی کہ وفاقی حکومت 11 نئے دانش اسکول بنائے گی۔
یہ اسکول آزاد کشمیر،گلگت بلتستان، بلوچستان کے علاوہ اسلام آباد میں تعمیرکیے جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے دانش اسکولوں کی تعمیر کے لیے 9اعشاریہ 18 ارب روپے رکھے ہیں جب کہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں ہیں۔
ان میں 150 سے زائد سرکاری یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ یہ سرکاری یونیورسٹیاں آزاد کشمیر، پختون خوا اور گلگت کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں جنرل یونیورسٹیوں کے علاوہ انجنیئرنگ، میڈیکل، ایگریکلچر، آرکیٹیکٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لبرل آرٹس کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ پورے ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیوں کو ہمیشہ وفاقی حکومت گرانٹ دیتی تھی، جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں یونیورسٹی کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ادارہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (U.
18ویں ترمیم کے بعد جب این ایف سی ایوارڈ کی تشکیلِ نو ہوئی اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا تو سندھ اور پنجاب نے اپنے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن قائم کیے مگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے تقررکی اہلیت اور نصاب کو جدید خطوط پر استوارکرنے کی ذمے داری ایچ ای سی کو ہی حاصل رہی۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں میں ریسرچ کلچرکو عام کرنے کے لیے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے نئے پروگرام متعارف کرائے۔ اساتذہ کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے علاوہ بین الاقوامی معیار کے ریسرچ جنرل میں تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت لازمی قرار دی گئی جس کی بناء پر پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
جب تک پرویز مشرف حکومت قائم رہی، ایچ ای سی کے پاس فنڈز کی بھرمار رہی، یہی وجہ ہے کہ پرانی یونیورسٹیوں میں نئی عمارتیں اور تجربہ گاہیں تعمیر ہوئیں اور نئی یونیورسٹیوں میں جدید انفرا اسٹرکچر نظر آنے لگا مگر پھر برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کی ترجیحات میں اعلیٰ تعلیم شامل نہیں رہی، یوں یونیورسٹیوں میں انتظامی اور مالیاتی بحرانات پیدا ہونے لگے۔ پورے ملک میں صرف چند یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی تمام یونیورسٹیاں معاشی بحران کی طرف بڑھنے لگیں، اگر گزشتہ 25 سال کے دوران اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایچ ای سی کا بجٹ یونیورسٹیوں کی ضروریات کے مطابق نہیں بڑھایا گیا۔
ایچ ای سی نے سرکاری یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اپنے وسائل کو بڑھاکر اپنے اخراجات پورے کریں، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو شام کے نئے پروگرام شروع کرنے پڑے۔ بعض میڈیکل کی یونیورسٹیوں نے ایم بی اے کے پروگرام شروع کیے۔ کچھ انجنیئرنگ کی یونیورسٹیوں نے سوشل سائنس کے پروگراموں پر توجہ دی۔ یونیورسٹیوں نے فیسوں میں کئی گنا زیادہ اضافہ کیا اور میرٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے سیلف فنانس کی بنیاد پر داخلے شروع کیے مگر ان تمام اقدامات کے باوجود یونیورسٹیوں کا مالیاتی بحران کم نہ ہوا۔ اس کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ نچلے متوسط طبقہ کے طلبہ کے لیے سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم کا حصول مشکل ہوگیا۔
یونیورسٹیوں میں فنڈز کی کمی سے تعلیمی معیار متاثر ہوا، خاص طور پر بنیادی سائنس کے مضامین میں آلات اور کیمیکل کی کمی کی بناء پر طلبہ اور اساتذہ تجربہ گاہوں میں اپنے پریکٹیکل سے محروم ہوئے، جو ریسرچ اسکالر سائنس میں پی ایچ ڈی کررہے تھے وہ اپنے کام کی تکمیل کے لیے کیمیکل اور آلات خریدنے پر مجبور ہوئے ۔ تحریک انصاف کی حکومت میں یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران پیدا ہوا۔ کسی دریا دل شخص کے مشورے پر اس وقت کی حکومت نے اس مسئلے کا حل تلاش کیا کہ یونیورسٹیوں کی قیمتی اراضی کو نیلام کردیا جائے۔ اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر بنوری نے اس تجویز کے خطرناک نتائج کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی۔ ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ اراضی کی فروخت سے ایک طرف تو یونیورسٹیاں اپنے قیمتی اثاثوں سے محروم ہوجائیں گی تو دوسری طرف لینڈ مافیا اور یونیورسٹیوں کے کارندوں کے اشتراک کے بہت سے اسکینڈل بن جائیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ڈاکٹر بنوری کو اس گستاخی پر ان کے عہدے سے سبکدوش کردیا، مگر ذرایع ابلاغ پر شور شرابہ ہوا تو اس اسکیم پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ ایک طرف یونیورسٹیوں مالیاتی بحران کا شکار ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ سے علمی آزادی کا حق چھینا جا رہا ہے۔
اب یہ ہدایات ہیں کہ اساتذہ اور طلبہ علمی کانفرنس اور سیمینار وغیرہ کے موضوعات کے لیے انتظامی کی منظوری کے پابند ہوںگے، یوں یونیورسٹیوں میں آزادانہ مکالمے کی روایت کو بھی قوانین میں جکڑا جارہا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے وسائل محدود ہیں۔ اگرچہ تمام یونیورسٹیوں نے فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا، اب یونیورسٹیاں اپنے فنڈز سے نہ تو مستحق طلبہ کی فیس معاف کرسکتی ہیں نہ کئی اسکالرشپ دی جاسکتی ہے، یوں نچلے متوسط طبقے کے طلبہ کے لیے سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اس دفعہ اضافہ ہونا ضروری تھا مگر حکومت نے گزشتہ سال کے مقابلے میں بجٹ میں کمی کر کے اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو مخدوش کردیا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی وفاقی تنظیم فپواسا کے رہنماؤں نے تعلیمی بجٹ میں کمی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 2018میں ایچ ای سی کی ریکرنٹ گرانٹ 65 ارب روپے تھے مگر اس میں اضافہ ہونے کے بجائے یہ گرانٹ کم ہوتی جا رہی ہے، اگر حکومت نے فوری طور پر یونیورسٹیوں کے بجٹ میں اضافہ نہ کیا تو یونیورسٹیوں میں تحقیق کے سارے کام رک جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں اتنی بڑی کمی سے یونیورسٹیاں اپنے طے شدہ اہداف سے دور ہوجائیں گی تو یہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم کا بلکہ پورے ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری یونیورسٹیوں یونیورسٹیوں میں یونیورسٹیوں کے یونیورسٹیوں نے مالیاتی بحران تعلیم کے لیے کے بجٹ میں ایچ ای سی پی ایچ ڈی کے علاوہ حکومت نے تعلیم کا ارب روپے
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کا ایران کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر علی شادمانی کو شہید کرنے کا دعویٰ
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایران کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر علی شادمانی کو تہران میں ایک حملے میں شہید کر دیا ہے۔
اسرائیلی بیان کے مطابق شادمانی ایران کے "سب سے سینئر کمانڈر" اور رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی ترین ساتھی تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ شادمانی کو خاتم الانبیاء سنٹرل ہیڈ کوارٹر کے سربراہ کے طور پر حال ہی میں تعینات کیا گیا تھا، یہ عہدہ انہیں اس وقت دیا گیا جب سابق کمانڈر غلام علی رشید کو جمعے کے روز اسرائیلی حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
ایرانی حکومت کی جانب سے فی الحال اس واقعے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اگر اسرائیلی دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ ایران کے فوجی ڈھانچے پر ایک بڑا دھچکا اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے مزید بڑھنے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔