حسینہ واجد کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان کے لیے حالات سازگار ہوچکے، پاکستانی تاجر عاطف ربانی
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
ملک کے معروف تاجر عاطف رانا ربانی کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان کے لیے حالات سازگار ہوچکے ہیں۔
عاطف رانا ربانی کا تعلق پاکستان کے شہر گجرانوالہ سے ہے اور یہ اپنے منفرد قسم کے پنکھے بنانے کے لیے مڈل ایسٹ اور خصوصاً بنگلہ دیش میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین عوامی رابطوں کو بڑھانے پر زور
وی نیوز کے چیف ایڈیٹر عمار مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ جس شہر سے تعلق رکھتے ہیں وہاں پر 60 سے زائد ایسے سیکٹرز ہیں جو کہ پروڈکٹس بنا رہے ہیں، وہاں پر صرف پنکھے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس کے علاوہ ٹینک سمیت دیگر ملٹری سازوسامان اور ہوم اپلائینسز بھی بنائے جاتے ہیں۔
عاطف ربانی نے بتایا کہ ان کے پنکھے صرف انڈسٹریز اور گھروں میں ہی نہیں استعمال ہو رہے بلکہ حرم شریف میں بھی ان کے پنکھے لگے ہوئے ہیں جن کو خاصی وقت ہو چکا ہے اور اس کے لیے وہ اللہ کا بہت شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سعادت کی بات ہے اور اس کے علاوہ یہ پوری دنیا میں ہماری نمائندگی بھی کر رہا ہے کہ پاکستان کا پنکھا سب سے بہترین پنکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گجرانوالہ پہلوانوں کا شہر کہلاتا ہے، یہ شہر ہنر مندوں کا شہرہے یہاں پر آپ کو ہر بچہ، بوڑھا ہنر مند ملے گا۔ میں نے خود بھی پاکستان کی بڑی بڑی انڈسٹریز کے ساتھ کام کیا ہے لیکن میں نے ایسی کوئی انڈسٹری نہیں دیکھی جہاں گجرانوالہ کے لوگ کام نہیں کرتے۔
عاطف رانا ربانی نے بتایا کہ ہمارے پاکستان کے فین انڈسٹری کی ایکسپورٹ دن بدن بڑھ رہی ہے، مختلف ممالک میں ہمارے پنکھے جا رہے ہیں، جیسے کہ یورپ، وہاں پر بھی پاکستان سے پنکھے ایکسپورٹ کیے جا رہے ہیں اس کے علاوہ امریکا، مڈل ایسٹ، افریقہ اور بنگلہ دیش میں بھی ہمارا پنکھا ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے۔ انڈیا اور چین بھی ایسے پنکھے نہیں بنا رہا ہے جتنی اچھی کوالٹی پاکستان فراہم کر رہا ہے۔
بجٹ کے حوالے سے انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی بجٹ آتا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ ہر تاجر بجٹ سے خوش ہو۔ گورنمنٹ بجٹ پیش کرنے سے پہلے تاجروں سے تجاویز تو مانگتی ہے لیکن پیش ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے ہماری تجاویز کو نظر انداز کر دیا، بند کمرے میں بیٹھ کر خود ہی بجٹ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستانی تجارتی وفد کی چٹاکانگ میں بنگلہ دیشی تاجروں سے ملاقات، دو طرفہ تجارت بڑھانے پر اتفاق
عاطف رانا ربانی نے کہا کہ ابھی جو نیا بجٹ پیش ہوا ہے اس میں حکومت نے کچھ ایسی ترامیم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے انڈسٹری کے لوگ بہت پریشان ہیں، جس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے ایف بی آر کو اجازت دے دی ہے کہ کاروباری تاجر کو گرفتار کر سکتے ہیں ایسا بلکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ صنعت کار ہے پہلے ایک جگہ لیتا ہے، وہاں اپنی انڈسٹری کو تعمیر کرتا ہے اور مشینیں لگاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، اس کے بعد اگر آپ کے اوپر کوئی ڈیپارٹمنٹ آجائے اور بغیر کسی وجہ مزدوروں کے سامنے ہتھکڑی لگا کر لے جائے تو جو یہ حکومت تاجردوست پالیسی کا نعرہ لگاتی ہے اس کا پھر کیا فائدہ لہٰذا حکومت کو یہ فیصلہ فوری واپس لینا چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ وقت پہلے ہی میں حکومت پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر بھی گیا ہوا تھا وہاں پاکستان ایمبیسی نے بہت شاندار نمائش کا انعقاد کیا تھا جو ایک شاندار ایونٹ اور اپنی مثال آپ تھا۔
ہم اپنی پروڈکٹ یہاں سے لے کر گئے اسی طرح ابھی دوسرے ممالک میں بھی سنگل کنٹری ایگزیبیشنز لگ رہی ہیں اور اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے یہ بڑا اچھا اقدام ہے کہ جو پاکستان کی حکومت کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردیں
انہوں نے کہا کہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے اس کو مزید بہترکیا جا سکتا ہے جیسے کہ ہم ابھی جن ملکوں میں جا رہے ہیں ان ملکوں کی مارکیٹ چھوٹی ہے ہمیں یورپ، امریکا تک رسائی لے کر دیں اور دوسرے ممالک کے لیے بھی مدد کریں جہاں کے ویزے ملنے میں ہمیں بہت دشواری پیش آتی ہے۔
عاطف رانا ربانی نے کہا کہ ہم اگر ایک بزنس مین ہیں اور ہمارے پاس امریکا اور کینیڈا کا ویزا لگا ہوا ہے تو ہمیں بہت سے چھوٹے ممالک بھی بعض اوقات ویزا نہیں دیتے یا پھر اس کے لیے ہمیں بہت زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ جو اچھے بزنس مین ہیں اور جن کے پاس اچھے ملکوں کے ویزے ہیں چھوٹے ملکوں کو کہیں کہ ان کو سہولت دیں اور آن ارائیول ویزا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے پوری دنیا میں ڈریگن مارٹ یا چائنا ٹاؤن جیسی مارکیٹ ڈویلپ کی ہوئی ہیں جہاں سے چین کی پروڈکٹ ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک بنگلہ دیش بڑھتے تعلقات خطے میں امن کے لیے کتنے اہم ہیں؟
بنگلہ دیش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہاں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور پاپولیشن بھی اچھی ہے اس لیے وہاں بائنگ پاور بھی بہت اچھی ہے لیکن چونکہ پہلے وہ بھارت کے زیر اثر تھے اور حسینہ واجد نے ان پر سختیاں بھی کی ہوئی تھیں اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ بزنس نہیں کرپا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب وہاں مارکیٹ اوپن ہوئی ہے اور ویزے بھی مل رہے ہیں اس لیے ہم وہاں جا کر اپنے کسٹمرز سے ملے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بنگلہ دیش میں ایک شاپ پر کھڑے تھے کہ وہاں ایک خاتون آئیں اور انہوں نے پاکستانی پنکھوں کی ڈیمانڈ کی اور تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی پنکھے اچھے ہوتے ہیں۔
عاطف رانا ربانی نے کہا کہ پاکستانیوں کا معیار زندگی بنگلہ دیشیوں سے بلند ہے جبکہ ان کا جی ڈی پی زیادہ ہے، ایسے میں وہ پاکستان کی پروڈکٹس خوشی سے خریدتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست تجارت سے کئی ممالک کی مشکل آسان
عاطف رانا ربانی نے کہا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ بنگلہ دیش میں بھی تجارتی نمائشوں کا انعقاد کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بتانا ہوگا کہ وہ پاکستانی پروڈکٹس خریدیں اور وہ بھی پاکستان وزٹ کریں اور ہم ایک دوسرے کے آئیڈیاز سے استفادہ کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بنگلہ دیش بزنس پاک بنگلہ دیش تعلقات پاکستانی پنکھے پاکستانی تاجر حسینہ واجد عاطف رانا ربانی کاروبار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بنگلہ دیش بزنس پاک بنگلہ دیش تعلقات پاکستانی پنکھے پاکستانی تاجر حسینہ واجد کاروبار انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پاک بنگلہ دیش نے بتایا کہ حسینہ واجد پاکستان کے ہمیں بہت میں بھی کے ساتھ رہے ہیں ہے اور رہا ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
غزہ: جنگ میں وقفوں کے باوجود انسانی حالات بدستور اندوہناک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 31 جولائی 2025ء) غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگ میں وقفوں کے باوجود انسانی حالات تباہ کن ہیں جہاں بچوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے، امدادی کارکنوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، پانی کی شدید قلت ہے اور ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث ضروری خدمات بند ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی جانب سے عسکری کارروائیوں میں چار روز سے وقفہ کیا جا رہا ہے لیکن امداد کی تلاش میں نکلنے والے لوگ اب بھی فائرنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور بھوک سے اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
Tweet URLلوگ اپنے بچوں کو بھوک سے تحفظ دینے کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ انہیں امداد کی فراہمی کے موجودہ حالات کو کسی طور تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔
(جاری ہے)
غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے اور عسکری کارروائیوں میں یکطرفہ وقفے انسانی امداد کی متواتر فراہمی اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔انسانی ساختہ خشک سالیاقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے منتظم اطلاعات ریکارڈو پائرز نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ہولناک حالات کا سامنا ہے۔ بچے غذائی قلت اور بھوک کا شکار ہیں اور خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں۔
علاقے میں قحط کی تین میں سے دو بڑی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے باعث یونیسف اور دیگر امدادی اداروں کو اپنا کام کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی ساختہ خشک سالی پھیل چکی ہے جہاں پانی کی فراہمی کا 40 فیصد نظام ہی کسی حد تک فعال ہے۔ بچوں کو جسم میں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور آلودہ پانی پینے سے انہیں اسہال اور گردن توڑ بخار جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے بتایا ہے کہ صاف پانی کا حصول روزانہ کی جدوجہد بن چکا ہے۔ بچے سارا دن سخت گرمی میں پانی لینے یکےلیے طویل قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ بحران بڑھتا جا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہے۔
ایندھن کا بحران'اوچا' نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز کیریم شالوم اور زکم کے سرحدی راستوں سے محدود مقدار میں ایندھن غزہ میں لایا گیا ہے جس کی ںصف مقدار شمالی علاقے میں اہم طبی ضروریات، ہنگامی امدادی اقدامات، پانی کی تنصیبات کو چلانے اور مواصلاتی نظام بحال رکھنے کے لیے بھیجی گئی ہے۔
غزہ میں ایندھن کی موجودہ مقدار زندگی کو تحفظ دینے کی خدمات برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے اور اس میں بلاتاخیر اضافے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے بتایا ہے کہ مصر سے طبی سازوسامان لے کر 10 ٹرک غزہ روانہ ہو چکے ہیں جن میں بیمار اور زخمی لوگوں کو دینے کے لیے خون بھی شامل ہے۔
امداد کی رسائی میں مشکلاتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ اگرچہ وہ جنگ میں دیے جانے والے وقفوں کے دوران لوگوں کو امداد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن امدادی وسائل کے مقابلے میں ضروریات بہت زیادہ ہیں۔
رسائی کے مسائل غزہ بھر میں لوگوں تک انسانی امداد پہنچانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
امدادی ٹرکوں کو کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے گزرنے کے لیے کئی جگہوں پر اسرائیلی حکام سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ محفوظ راستوں کی فراہمی، امدادی قافلوں کی گزرگاہ پر بمباری کو رکوانا اور بند دروازوں کو کھلوانا بھی بہت بڑے مسائل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں طبی ضروریات بے پایاں ہیں جن کی تکمیل کے لیے امدادی سامان کی بڑے پیمانے پر، محفوظ اور بلارکاوٹ فراہمی جلد از جلد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔