سماج وادی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ریاست میں محکمہ صحت کے انچارج وزیر محکمہ کو سنبھالنے کے بجائے معاشرے میں لڑائی جھگڑوں کو ہوا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بی جے پی حکومت پر ریاست کی طبی سہولیات کو برباد کرنے کا الزام دہرایا ہے۔ اکھلیش یادو نے ایک بیان میں کہا کہ اسپتالوں میں لاپرواہی کی وجہ کئی جگہ مریضوں کی اموات ہوچکی ہیں۔ میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں میں میعار کے مطابق پروفیسر، ڈاکٹر، تکنیکی اسٹاف اور بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس طلبہ کی پڑھائی کے لئے سہولیات اور وسائل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میڈیکل کالجوں اور بڑے اداروں کو ان کی ضروریات کے مطابق بجٹ نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں محکمہ صحت کے انچارج وزیر محکمہ کو سنبھالنے کے بجائے معاشرے میں لڑائی جھگڑوں کو ہوا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسپتالوں میں دلالوں کا قبضہ ہے، اشیاء کی خریداری میں کرپشن اور کمیشن ہے، جس کے نتیجے میں بعض مقامات پر آگ لگنے کے واقعات اور دیگر مقامات پر اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے محکمہ صحت کی حالت ایسی کر دی ہے کہ میڈیکل کالج اور اسپتال خود بیمار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لکھنؤ میں بی جے پی حکومت کی ناک کے نیچے بڑے اداروں میں لاپرواہی عروج پر ہے، لوہیا انسٹی ٹیوٹ سے بائیوپسی کے 12 نمونے غائب ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر صحت کے پاس بیان بازی اور خالی دعووں کے علاوہ کچھ کرنے کا وقت نہیں ہے، وہ زمینی حقیقت کو کیسے سمجھیں گے۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ صورتحال ایسی ہے کہ مریض سرکاری اسپتالوں میں جانے سے ڈرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں جانے پر مجبور ہیں جہاں انہیں علاج کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ایک سازش کے تحت سرکاری خدمات کو خراب کر رہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ اکھلیش یادو نے بی جے پی حکومت اسپتالوں میں

پڑھیں:

سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ: اسلام بطور نظامِ حیات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-5

 

میر بابر مشتاق

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جو اپنے فکر و عمل کے ذریعے نہ صرف اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا چراغ جلا گئیں۔ بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسی ہی ایک شخصیت سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض عقیدہ، چند رسوم اور عبادات کا مجموعہ بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ اسے ایک مکمل اور ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا۔ یہ وہ پہلو ہے جس نے انہیں بیسویں صدی کی سب سے مؤثر اسلامی شخصیتوں میں شامل کر دیا۔

جب انہوں نے آنکھ کھولی تو برصغیر پر انگریز سامراج کی گرفت مضبوط تھی۔ مغل سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا اور مسلمان اپنی تہذیبی، علمی اور سیاسی حیثیت کھو بیٹھے تھے۔ ایک طبقہ مغربی تہذیب کے سامنے مسحور ہو کر اسلام کو محض نجی عبادات تک محدود کر دینا چاہتا تھا، جبکہ دوسرا طبقہ خانقاہی رسوم اور پیر پرستی میں گم تھا۔ اس ماحول میں سید مودودیؒ نے یہ پیغام دیا کہ اسلام صرف مسجد اور خانقاہ تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی انفرادی، اجتماعی اور ریاستی زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کو مکمل ضابطہ ٔ حیات کے طور پر اپنانا ہوگا۔

ان کے نزدیک اسلام کی بنیاد توحید ہے، اور توحید محض زبان سے پڑھ لینے کا عقیدہ نہیں بلکہ عملی نظام کی اساس ہے۔ اگر انسان اللہ کی حاکمیت کو مان لیتا ہے تو پھر کسی اور قانون، فلسفے یا نظام کے آگے سر جھکانا اس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ سیاست میں ان کا نظریہ تھا کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے اور انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی فرد، خاندان یا طبقے کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کے احکام کی تابع ایک ادارہ ہے۔ معاشی میدان میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور سود کو صریح ظلم قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سود پر مبنی معیشت انسانیت کو غلام بنا دیتی ہے جبکہ اسلام کا عدل پر مبنی نظام انسان کو سکون اور انصاف فراہم کرتا ہے۔ معاشرت کے باب میں انہوں نے خاندان کی بنیاد پر قائم ایک ایسی معاشرت کا تصور دیا جو تعلیم، اخلاق، عدل اور فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت اسلامی کی بنیاد بنی جسے انہوں نے اس مقصد کے لیے قائم کیا کہ اسلامی نظام کو محض کتابوں میں نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک منظم جدوجہد کے ذریعے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔

سید مودودیؒ کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے درجنوں کتب تحریر کیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔ ان کی کتاب تفہیم القرآن ان کے فکری کارنامے کا سنگ ِ میل ہے جس میں انہوں نے قرآن کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے سادہ اور عقلی زبان میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ الجہاد فی الاسلام میں جہاد کے صحیح مفہوم کو اُجاگر کیا، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی میں اسلامی تمدن کی اساسات بیان کیں، سود میں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالی اور اسلامی ریاست میں ایک مکمل سیاسی تصور پیش کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو خواں طبقے کے لیے مشعل ِ راہ بنیں بلکہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ نئی ریاست کا نظام کیا ہوگا، تو سید مودودیؒ کی فکر نے ہی اس بحث کا رُخ متعین کیا۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں 1949 کی قراردادِ مقاصد سامنے آئی جس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان کا نظام اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔ بعدازاں 1973 کے آئین میں بھی اسلام کو بنیادی حیثیت دینے میں ان کے افکار اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کا کردار نمایاں رہا۔ یہ ان کی فکری اور تحریکی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا۔یقینا ہر بڑی شخصیت کی طرح سید مودودیؒ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکولر طبقہ انہیں مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے والا قرار دیتا رہا جبکہ بعض علماء نے ان پر جدید تعبیرات کے الزامات لگائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی خدمت یہی تھی کہ انہوں نے اسلام کو مسجد سے نکال کر معیشت، سیاست، عدالت، تعلیم اور معاشرت کے ہر میدان تک پہنچایا۔ وہ کہتے تھے: ’’اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر دینا، اس کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہے‘‘۔

آج جب دنیا سرمایہ دارانہ ظلم، اخلاقی انارکی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے، نوجوان نسل ایک ایسے متبادل کی تلاش میں ہے جو انہیں سکون، عدل اور رہنمائی دے سکے۔ مغربی فلسفے ناکام ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری نے چند ہاتھوں میں دولت کو سمیٹ لیا ہے، اشتراکیت نے انسان کی آزادی کو ختم کیا اور سیکولر ازم نے روحانی سکون چھین لیا۔ ایسے وقت میں سید مودودیؒ کی فکر پہلے سے زیادہ زندہ اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ انہیں یقین تھا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ اس یقین کی بنیاد صرف جذبات نہیں بلکہ قرآن کی وہ بشارت تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے‘‘۔ (الصف: 9) ان کے نزدیک اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے، اسی لیے یہ لازماً غالب آ کر رہے گا۔ آج دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں، چاہے وہ مشرقِ وسطیٰ میں ہوں، ترکی، افریقا یا جنوبی ایشیا میں، سب کسی نہ کسی درجے میں ان کی فکر سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلام کو محض ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل اور ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے بتا دیا کہ اسلام انسان کی نجی زندگی سے لے کر ریاستی نظام تک ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ آج کی دنیا جس فکری اور تہذیبی بحران سے دوچار ہے، اس کا حل صرف اسی نظام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام آج بھی تازہ ہے، ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور ان کی فکر آج بھی کروڑوں دلوں کو بیدار کر رہی ہے۔یقینا مستقبل اسلام کا ہے۔ یہ قرآن کا وعدہ بھی ہے اور تاریخ کا ناگزیر انجام بھی۔ سید مودودیؒ نے اسی مستقبل کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اب یہ ذمے داری امت کی ہے کہ وہ اس فکر کو آگے بڑھائے اور دنیا کو عدل، سکون اور رہنمائی کا حقیقی پیغام دے۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ: اسلام بطور نظامِ حیات
  • پیپلزپارٹی نے طویل حکومت کے باوجود سندھ اور کراچی کو زمانہ قدیم کی حالت میں دھکیل دیا
  • پنجاب نے بجلی بلوں سے ڈیوٹی وصولی جاری رکھنے کی تجویز دے دی
  • حکومت کشمیر کی سیب کی صنعت کو دانستہ طور پر تباہ کر رہی ہے، وحید پرہ
  • دعا ملک نے انڈسٹری میں ہراسانی کا انکشاف کردیا، مشہور شخصیت ملوث
  • ’اب پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں‘، اعداد و شمار نے بھارتی کپتان سوریا کمار یادو کو غلط ثابت کردیا
  • سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، خیرپور میں بچی بہہ گئی، تین دن میں تین افراد جاں بحق
  • ہمیں ایک آمرانہ نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے، میر واعظ
  • میرپور خاص: محکمہ ریونیو نے 22کروڑ کا پلاٹ مالک کی اجازت کے بغیر فروخت کردیا
  • ملک میں نئے صوبے بنانے کا شور تو ہے لیکن عملی کام نہیں ہورہا، رانا ثنااللہ