امریکا، ایران اسرائیل جنگ کا حصہ نہ بنے: روس کا ایک بار پھر انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس نے امریکہ کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں شامل نہ ہو۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ انتباہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ کے اس جنگ میں کودنے کے بارے میں مختلف خبریں اور موقف پیش کیے جارہے ہیں۔
روس ایران کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے، دونوں ملکوں کے درمیان گہرا تزویراتی اور فوجی تعاون و شراکت داری موجود ہے، ایران پر اسرائیلی حملوں کے باوجود روس نے اس تناظر میں ایران کو بظاہر کوئی مدد نہیں دی ہے، ولادی میر پیوٹن خود کو ایک ایسے ثالث کے طور پیش کر رہے ہیں جو خود جنگ کا حصہ بنا ہو۔
اب روس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جنگی ماحول میں نہ شامل ہو۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہروف نے امریکہ کو متنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
اس سے قبل ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے روسی ثالثی کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، ٹرمپ کا یہ ثالثی مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس پہلے اپنا یوکرین کے ساتھ جھگڑا ختم کرے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ٹرمپ کے روسی ثالثی کی تجویز مسترد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ پیش کش تو ان ملکوں کو کی گئی تھی جو اس جنگ کے براہ راست فریق ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے متعلق میڈیا رپورٹس صرف قیاس آرائیاں ہیں، لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ ایک تباہ کن پیش رفت ہوگی۔
یاد رہے کہ روس کی طرف سے یہ انتباہ پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے فون پر اس معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کی ہے۔
صدر پیوٹن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو دونوں رہنماؤں کی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد بریف کیا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ دشمنی کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی طریقوں سے کیا جانا چاہئے۔
صدر پیوٹن کا رات گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھاکہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی معاہدات ہونے کے باوجود ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد بھی روس سے کوئی فوجی مدد نہیں مانگی ہے، ہمارے ایرانی دوست نے اس بارے میں ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
اس سوال پر کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کیا جاتا ہے تو روس کا کیا رد عمل ہو گا، پیوٹن نے کہا کہ میں اس امکان کے بارے بات بھی نہیں کرنا چاہتا، اگر ایران نے انسانی بنیادوں پر روس سے کوئی مدد مانگی تو میں ضرور بھیجوں گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران کے
پڑھیں:
امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
امریکا نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر بھارت کو دیا گیا پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے نئی دہلی کے اس اسٹریٹجک منصوبے پر براہِ راست اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ فیصلہ 29 ستمبر سے نافذ ہوگا اور واشنگٹن کی ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کا حصہ ہے۔
امریکا کے محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ استثنیٰ کا خاتمہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق ہے تاکہ ایران کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔
اس کے بعد جو بھی ادارے یا افراد چاہ بہار بندرگاہ میں سرگرمیاں جاری رکھیں گے وہ امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
بھارت کے لیے مشکل صورتِ حال
بھارت نے 2024 میں ایران کے ساتھ دس سالہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت بھارتی کمپنی IPGL نے بندرگاہ پر 12 کروڑ ڈالر لگانے اور مزید 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
چاہ بہار بھارت کے لیے وسطی ایشیا اور افغانستان تک براہِ راست رسائی کا ذریعہ ہے اور اسے پاکستان پر انحصار سے آزادی دیتا ہے۔
امریکی اقدام نئی دہلی کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال رہا ہے کیونکہ اسے واشنگٹن اور تہران دونوں کے ساتھ تعلقات کا توازن رکھنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت چین کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے، جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر پہلے ہی اثرورسوخ رکھتا ہے۔
ٹرمپ کا بگرام ایئربیس واپس لینے کا عندیہ
ادھر صدر ٹرمپ نے برطانیہ کے دورے کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ ایئربیس 2021 میں امریکا کے انخلا کے بعد طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ طالبان کو بھی ہم سے بہت سی چیزیں درکار ہیں۔
ان کے مطابق یہ بیس چین کے قریب واقع ہے جہاں اس کی ایٹمی سرگرمیاں ہیں، اس لیے اس کی اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سابق صدر نے ایک بار پھر بائیڈن انتظامیہ کے افغانستان سے انخلا کو ’ناکام فیصلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس نے روسی صدر پیوٹن کو یوکرین پر حملے کی ہمت دی۔
فی الحال امریکا اور طالبان کے درمیان بگرام بیس کی واپسی پر براہِ راست مذاکرات کی تصدیق نہیں ہوئی، تاہم حالیہ مہینوں میں دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت ضرور ہوئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں