بلوچستان میں خواتین صحافیوں پر ڈیجیٹل حملے، ایک خاموش محاذ کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
بلوچستان کی پُرپیچ وادیوں اور دور افتادہ بستیوں میں جب خواتین اپنے قلم سے سچ بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو ان کے خلاف نہ صرف سماجی رویے ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، بلکہ ایک نیا ’ڈیجیٹل حملوں‘ کا محاذ بھی کھل جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ سبین ملک کے ساتھ پیش آیا، جو 2019 میں تربت کے ایک حساس معاملے پر رپورٹنگ کے لیے گئی تھیں۔ ان کی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوگیا۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، اور ایسے الفاظ استعمال کیے گئے جو میں دہرا بھی نہیں سکتی‘۔ سبین نے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا، لیکن تب تک وہ اکاؤنٹس یا تو ڈیلیٹ ہو چکے تھے یا ناقابلِ شناخت تھے۔
لیکن سبین اکیلی اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کر رہی ہیں۔ اقصیٰ میر، جو ایک مقامی ٹی وی چینل کی رپورٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ ’جب ہم بلوچستان میں بطور خاتون خبر دیتی ہیں یا کسی سیاسی معاملے پر رپورٹنگ کرتی ہیں، تو ہمیں سوشل میڈیا ٹرولنگ پر گالیاں، دھمکیاں، اور ذاتی کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کئی بار سوشل میڈیا سے بریک لے چکی ہوں۔‘
ڈیجیٹل خطرات — صرف ورچوئل نہیںبلوچستان میں خواتین صحافیوں کو درپیش ڈیجیٹل خطرات محض آن لائن نہیں ہوتے۔ ان کے اثرات ذاتی، پیشہ ورانہ اور نفسیاتی زندگی پر گہرے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ حملے بلیک میلنگ، اکاؤنٹ ہیکنگ، یا ڈیپ فیک ویڈیوز کی شکل میں ہوتے ہیں۔
روزنامہ انتخاب کے چیف ایڈیٹر انور ساجدی خبردار کرتے ہیں کہ ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے غلط استعمال سے اب کسی کی جعلی تصویر یا ویڈیو بنانا بہت آسان ہوگیا ہے، اور خواتین صحافیوں کے خلاف یہ ایک نیا ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔‘
قانونی تحفظات — موجود لیکن ناکافیاگرچہ 2016 کا پیکا ایکٹ (PECA) سائبر جرائم سے تحفظ دیتا ہے، مگر بلوچستان میں عمل درآمد کی رفتار سست ہے۔ متعدد خواتین صحافیوں نے شکایت کی کہ رپورٹ کرنے کے باوجود ان کی درخواستوں پر کارروائی نہیں ہوئی، یا متعلقہ اداروں کا رویہ غیر سنجیدہ رہا۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کہتی ہیں کہ ’قانون کا ہونا کافی نہیں۔ ہمیں خواتین صحافیوں کو تربیت دینی ہوگی کہ وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت، پرائیویسی اور سکیورٹی خود کیسے سنبھال سکتی ہیں۔‘
یکجہتی اورعملی اقدامات کی ضرورتصحافتی تنظیمیں، میڈیا ہاؤسز اور ریاستی ادارے اگر مل کر ایک لائحہ عمل مرتب کریں، تو ان خواتین کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل سیفٹی ورکشاپس کا انعقاد، سائبر شکایات پر فوری ایکشن، خواتین کے لیے سپورٹ نیٹ ورکس اور لیگل ہیلپ لائنز کاقیام، صحافتی نصاب میں ڈیجیٹل لٹریسی کا اضافہ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مقامی سطح پر ذمہ داری لینا ایسے اقدامات ہیں جو کہ وقت کی ضرورت ہیں۔
بلوچستان کی خواتین صحافی ہر روز نہ صرف میدانِ صحافت میں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں بھی ایک خاموش جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کی کہانیوں کو سننے، سمجھنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت آ چکا ہے۔
تحریر: سدرہ عارف
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان میں سوشل میڈیا کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ مجھ پر انڈوں سے حملہ کرنے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، جن 2 خواتین نے مجھ پر انڈا پھینکا ان کو پولیس نے بچایا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس نے کہا کہ دونوں خواتین کو حراست میں لیا گیا ہے بعد میں دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ دو سال سے ہم جیل آتے ہیں کبھی کوئی بدتمیزی کا واقعہ پیش نہیں آیا، دو چار لوگوں کو باقاعدہ طور پر اب ماحول خراب کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیس نے بتایا 4 بندے بدتمیزی کرنے کے لیے آپ کے پیچھے ہیں، کسی کی بھی ماں بیٹی پر اس طرح حملہ ہوگا کوئی برداشت نہیں کرے گا، ہمارا معاشرہ اور دین خواتین سے اس طرح کی بدتمیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کل بھی ہمارے ساتھ جیل کے باہر اسی خاتون نے بدتمیزی کی کوشش کی جس نے انڈا پھینکا، جیل کے باہر کل ہمارے اوپر کسی نے پتھر بھی مارے، پہلے انڈا پھینکا، پھر بدتمیزی کی، کل پتھر مارے اب چھرا بھی مار سکتے ہیں۔ علیمہ خان نے کہا کہ ہمارا کام بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچانا ہے وہ ہم پہنچائیں گے، ہم پر حملہ ہوا ہماری ایف آئی آر پولیس درج نہیں کر رہی۔ ہمارے وکلاء جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اے ٹی سی منتقل کرنے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کریں گے۔ قانون اور انصاف تو یہاں ہے نہیں، یہ بانی پی ٹی آئی کی آواز بند کرنا چاہتے ہیں۔