بلوچستان کی پُرپیچ وادیوں اور دور افتادہ بستیوں میں جب خواتین اپنے قلم سے سچ بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو ان کے خلاف نہ صرف سماجی رویے ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، بلکہ ایک نیا ’ڈیجیٹل حملوں‘ کا محاذ بھی کھل جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ سبین ملک کے ساتھ پیش آیا، جو 2019 میں تربت کے ایک حساس معاملے پر رپورٹنگ کے لیے گئی تھیں۔ ان کی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوگیا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، اور ایسے الفاظ استعمال کیے گئے جو میں دہرا بھی نہیں سکتی‘۔ سبین نے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا، لیکن تب تک وہ اکاؤنٹس یا تو ڈیلیٹ ہو چکے تھے یا ناقابلِ شناخت تھے۔

لیکن سبین اکیلی اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کر رہی ہیں۔ اقصیٰ میر، جو ایک مقامی ٹی وی چینل کی رپورٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ ’جب ہم بلوچستان میں  بطور خاتون خبر دیتی ہیں یا کسی سیاسی معاملے پر رپورٹنگ کرتی ہیں، تو ہمیں سوشل میڈیا ٹرولنگ پر گالیاں، دھمکیاں، اور ذاتی کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کئی بار سوشل میڈیا سے بریک لے چکی ہوں۔‘

ڈیجیٹل خطرات — صرف ورچوئل نہیں

بلوچستان میں خواتین صحافیوں کو درپیش ڈیجیٹل خطرات محض آن لائن نہیں ہوتے۔ ان کے اثرات ذاتی، پیشہ ورانہ اور نفسیاتی زندگی پر گہرے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ حملے بلیک میلنگ، اکاؤنٹ ہیکنگ، یا ڈیپ فیک ویڈیوز کی شکل میں ہوتے ہیں۔

روزنامہ انتخاب کے چیف ایڈیٹر انور ساجدی خبردار کرتے ہیں کہ ’آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے غلط استعمال سے اب کسی کی جعلی تصویر یا ویڈیو بنانا بہت آسان ہوگیا ہے، اور خواتین صحافیوں کے خلاف یہ ایک نیا ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔‘

قانونی تحفظات — موجود لیکن ناکافی

اگرچہ 2016 کا پیکا ایکٹ (PECA) سائبر جرائم سے تحفظ دیتا ہے، مگر بلوچستان میں عمل درآمد کی رفتار سست ہے۔ متعدد خواتین صحافیوں نے شکایت کی کہ رپورٹ کرنے کے باوجود ان کی درخواستوں پر کارروائی نہیں ہوئی، یا متعلقہ اداروں کا رویہ غیر سنجیدہ رہا۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کہتی ہیں کہ ’قانون کا ہونا کافی نہیں۔ ہمیں خواتین صحافیوں کو تربیت دینی ہوگی کہ وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت، پرائیویسی اور سکیورٹی خود کیسے سنبھال سکتی ہیں۔‘

یکجہتی اورعملی اقدامات کی ضرورت

صحافتی تنظیمیں، میڈیا  ہاؤسز اور ریاستی ادارے اگر مل کر ایک لائحہ عمل مرتب کریں، تو ان خواتین کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے۔

 ڈیجیٹل سیفٹی ورکشاپس کا انعقاد، سائبر شکایات پر فوری ایکشن، خواتین کے لیے سپورٹ نیٹ ورکس اور لیگل ہیلپ لائنز کاقیام، صحافتی نصاب میں ڈیجیٹل لٹریسی کا اضافہ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مقامی سطح پر ذمہ داری لینا ایسے اقدامات ہیں جو کہ وقت کی ضرورت ہیں۔

بلوچستان کی خواتین صحافی ہر روز نہ صرف میدانِ صحافت میں بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں بھی ایک خاموش جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان کی کہانیوں کو سننے، سمجھنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت آ چکا ہے۔

تحریر: سدرہ عارف

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سدرہ عارف

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان میں سوشل میڈیا کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

دہلی کے ہائی سیکیورٹی زون میں خاتون رکن اسمبلی سے سونے کی چین چھین لی گئی

بھارت کے دارالحکومت دہلی کے انتہائی سیکیورٹی والے علاقے ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جہاں کانگریس کی خاتون رکن اسمبلی سدھا رام کرشنن سے مارننگ واک کے دوران اسکوٹی سوار ایک شخص نے سونے کی چین چھین لی۔

تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح تقریباً 6 بجے کے بعد اُس وقت پیش آیا جب سدھا رام کرشنن پولینڈ ایمبیسی کے قریب واک کر رہی تھیں۔ 

ایک ہیلمٹ پہنے اسکوٹی سوار آہستہ آہستہ ان کے قریب آیا، اور جیسے ہی موقع ملا، ان کے گلے سے سونے کی چین زور سے کھینچ لی، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر چوٹ بھی آئی۔

رکن اسمبلی نے فوری طور پر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر واقعے کی شکایت درج کرائی اور اسے خواتین کی سیکیورٹی کے حوالے سے خطرناک پیغام قرار دیا۔  

ان کا کہنا تھا کہ "اگر دہلی کے ہائی سیکیورٹی زون میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں، تو ملک کے باقی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔"

مقامی پولیس نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم تاحال کسی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔
 

متعلقہ مضامین

  • ہجوم کو اڈیالہ جیل یا پنجاب کے کسی مقام پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے، وزیرمملکت داخلہ
  • دہلی کے ہائی سیکیورٹی زون میں خاتون رکن اسمبلی سے سونے کی چین چھین لی گئی
  • بھارت کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے، پاکستان خاموش نہیں بیٹھے گا، اسحاق ڈار
  • مفرور ارکان پارلیمنٹ احتجاج کیلئے اڈیالہ جیل نہیں آئیں گے؛  اندر کی کہانی
  • آسان اقساط میں اسمارٹ فونز کی فراہمی کے لیے ایک نئی پالیسی تیار کی جا رہی ہے: وفاقی وزیر
  • حارث رؤف کا ’فارمنگ اورا‘ کی طرز پر جشن موضوع بحث بن گیا، یہ کہانی کیا ہے؟
  • خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔
  • خوبصورتی کے راز پر اداکارائیں کیوں خاموش رہتی ہیں؟ تمنا بھاٹیا کا انکشاف
  • بلوچستان: مخصوص نشستوں پر بلدیاتی ضمنی انتخاب کے غیر سرکاری نتائج
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف