پاکستانی سفارتی مندوبین کا چین میں جِنکو سولر فیکٹری کا دورہ، گرین انرجی میں چین-پاکستان تعاون پر زور
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
نان چھانگ(سی این پی)سٹریٹجک کمیونیکیشن فورم 2025 حال ہی میں ’’ترقی کے مشترکہ مستقبل کے لئے تہذیبوں کے درمیان تبادلے اور باہم سیکھنے کے عمل‘‘ کے عنوان سے چین کے صوبہ جیانگ شی کے شہر شانگ راؤ میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں چینی اور بین الاقوامی مہمانوں نے شرکت کرتے ہوئے عالمی سطح پر تہذیبی مکالمے اور پائیدار ترقی پر بات چیت کی۔ فورم کے دوران پاکستان کے سفارتی مندوبین نے شانگ راؤ اکنامک اینڈ ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ زون میں واقع جِنکو سولر کے انٹیلیجنٹ کارخانے کا دورہ کیا اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کی دنیا کا عملی مشاہدہ کیا۔
کارخانے میں داخل ہوتے ہی نمائندے اس کی اعلیٰ درجے کی خودکاری سے بے حد متاثر ہوئے۔ روبوٹک بازو انتہائی نازک کام انجام دے رہے تھے جبکہ انٹیلیجنٹ انتظامی نظام پورے پیداواری عمل کی حقیقی وقت میں نگرانی کر رہے تھے۔ کرسٹل لائن سلیکون جیسے خام مال کو صاف توانائی کے بنیادی اجزا میں موثر انداز میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کے سفارت خانے میں تعینات قونصلر محمد عمر نے کہا کہ یہ واقعی حیران کن ہے، ہر چیز انتہائی جدید اور خودکار ہے۔ فوٹو وولٹک ٹیکنالوجی کے عالمی رہنما کا ملکیتی یہ انٹیلیجنٹ کارخانہ ٹیکنالوجی کی جدت پر مبنی ترقی یافتہ پیداواری لائنوں، سخت ماحولیاتی معیار اور نمایاں اختراعی کامیابیوں کی بدولت مندوبین کی نظر میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں چمکتا ہوا موتی بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دورے میں انہیں چین کی جدید صنعتی صلاحیتوں کے بارے میں ایک گہرا فہم حاصل ہوا اور سیکھنے کا انتہائی قیمتی موقع ملا۔
توانائی کے شعبے میں تعاون طویل عرصے سے چین اور پاکستان کے تعلقات کا اہم پہلو رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران جِنکو سولر نے قابل تجدید توانائی کے نمائندے کے طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستانی وفد کے ساتھ شمسی توانائی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلسل 5 سال سے دنیا میں سب سے زیادہ فوٹو وولٹک ماڈیول برآمد کرنے والی بڑی صنعتی کمپنی کے طور پر جِنکو سولر پاکستان کو ایشیا بحرالکاہل خطے میں انتہائی اہم منڈی سمجھتی ہے۔ جِنکو سولر کے ایشیا بحرالکاہل خطے کے جنرل منیجر لی یان نے کہا کہ پاکستان کی شمسی توانائی کی منڈی حالیہ برسوں میں تیزی سے وسیع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر پائیدار توانائی کے حل تلاش کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
پاکستان کے پاس شمسی توانائی پیدا کرنے اور توانائی ذخیرہ کرنے کے لئے منفرد صلاحیتیں اور فوری ضرورتیں موجود ہیں۔ ملک شمسی وسائل سے مالامال ہے بالخصوص سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں جہاں سالانہ 3 ہزار گھنٹے سے زیادہ سورج کی روشنی دستیاب ہوتی ہے۔ تاہم توانائی کی دائمی قلت طویل عرصے سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
چائنہ انسٹی ٹیوٹس آف کنٹیمپریری انٹرنیشنل ریلیشنزمیں انسٹی ٹیوٹ فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر وانگ شی دا نے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے دائرہ کار کے تحت چین نے بجلی کی کمی پر قابو پانے کے لئے توانائی کے کئی منصوبے تعمیر کرنے میں پاکستان کی معاونت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس تیل، گیس اور وافر کوئلے جیسے روایتی توانائی کے ذرائع موجود نہیں ہیں اور توانائی کی درآمد سے قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان بھرپور طور پر ماحول دوست توانائی کی تیاری میں مصروف ہے اور اس نے اپنی مجموعی بجلی میں صاف توانائی کے تناسب کو بڑھانے کے لئے کئی ترقیاتی منصوبے ترتیب دئیے ہیں۔
وانگ شی دا نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران سولر پینلز، متعلقہ اجزاء اور توانائی ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر مشتمل چین کی فوٹو وولٹک صنعت مقدار، معیار، ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی اور لاگت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے آ چکی ہے۔ اس تناظر میں چین اور پاکستان کے درمیان شمسی توانائی کے شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ سی پیک کے دائرہ کار کے تحت چینی کمپنیوں نے پہلے ہی پاکستان میں متعدد فوٹو وولٹک منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور ان پر کام کر رہی ہیں۔ وانگ شی دا کے مطابق اطلاعات ہیں کہ پاکستان درآمدی فوٹو وولٹک مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس سے مارکیٹ کے نکتہ نظر سے چینی کمپنیاں کچھ پیداواری مراکز پاکستان منتقل کرسکتی ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 کے اختتام تک پاکستان میں شمسی توانائی کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت 4.
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: توانائی کے شعبے میں تعاون شمسی توانائی چین پاکستان پاکستان کے توانائی کی ج نکو سولر نے کہا کہ کے لئے
پڑھیں:
پاکستان اورایتھوپیا میں زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، خوراک کے تحفظ اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جائے گا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اکتوبر2025ء) وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبد اللہ سے اعلیٰ سطحی ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے درمیان زرعی اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وفاقی وزیر نے سفیر کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایتھوپیا کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں اور دونوں ممالک بنیادی طور پر زرعی معیشت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مشترکہ پہلو کو بنیاد بنا کر خوراک کے تحفظ کے عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعاون کو بڑھایا جا سکتا ہے۔رانا تنویر حسین نے کہا کہ پاکستان کے زرعی شعبے میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور ایتھوپیا کے ساتھ تعاون دونوں ممالک کے لیے غذائی نظام کو مستحکم کرنے، اختراعات کو فروغ دینے اور دیہی ترقی کو آگے بڑھانے میں فائدہ مند ہوگا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ایتھوپیا ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک رول ماڈل ہے جس نے مقامی بنیادوں پر ترقیاتی ماڈل اپنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھی بیرونی ماڈلز اپنانے کے بجائے مقامی بنیادوں پر ترقی کا حامی ہے۔وزیر نے دونوں ممالک کے درمیان مکالمے اور تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے زرعی اور لائیو اسٹاک پر مشترکہ ورکنگ گروپ (JWG) قائم کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ورکنگ گروپ تحقیق، لائیو اسٹاک صحت، ویٹرنری سروسز، ٹیکنالوجی کی منتقلی، آبپاشی اور تکنیکی تبادلوں کے ذریعے استعداد کار میں اضافے کے لیے تعاون کو فروغ دے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زرعی تجارت کو بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان سینیٹری اور فائٹو سینیٹری (SPS) معیارات کے ہم آہنگی پر تعاون ضروری ہے۔رانا تنویر حسین نے کہا کہ ایتھوپیا کی شاندار کامیابی، بالخصوص کافی کی برآمدات میں اضافہ، اس کی پالیسیوں کی درست سمت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اعلیٰ معیار کی ایتھوپیائی کپاس درآمد کرنے کا خواہاں ہے تاکہ زرعی درآمدات میں تنوع لایا جا سکے اور ٹیکسٹائل کی پیداوار کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی اسٹریٹجک حیثیت کے باعث وسطی ایشیا کے لیے گیٹ وے ہے، جس کی وجہ سے اسے خطے میں تجارت اور روابط کے لیے کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان تحقیق پر مبنی تعاون کے ذریعے ایتھوپیا کے ساتھ خوراک کے تحفظ، اختراعات اور پائیدار ترقی کے اہداف کو آگے بڑھائے گا۔سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبد اللہ نے پاکستان کے وڑن کو سراہا اور زرعی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایتھوپیا نے مقامی بنیادوں پر ترقیاتی ماڈل اپنا کر اپنی عوام کو متحرک کیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ مسائل اور ان کے حل مقامی حالات کے مطابق ہی ڈھونڈے جانے چاہئیں۔ملاقات کے اختتام پر رانا تنویر حسین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اور ایتھوپیا کے درمیان زرعی تعاون کو بڑھا کر نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے گا بلکہ یہ شراکت داری دونوں ممالک میں خوراک کے تحفظ، دیہی معیشت اور خوشحالی کو بھی یقینی بنائے گی۔