مشرق وسطیٰ میں امریکا کے جنگی اثاثے کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
مشرق وسطیٰ میں امریکا نے گزشتہ 2 دہائیوں میں جس تسلسل اور قوت سے اپنی عسکری موجودگی کو پھیلایا ہے، وہ کسی بھی ممکنہ جنگ یا ہنگامی صورتحال میں اس کی فیصلہ کن مداخلت کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں یہ سوال پھر سے اٹھا ہے کہ خطے میں امریکا کے جنگی اثاثے کہاں کہاں موجود ہیں اور کس حد تک فعال ہیں؟
الجزیرہ کے دفاعی تجزیہ کار ایلیکس گیٹوپولوس کے مطابق امریکا کے پاس خلیجی خطے میں متعدد کلیدی فضائی اور بحری اڈے موجود ہیں۔ امریکا کے 5 فضائی ایکسپیڈیشنری ونگز اس وقت خلیجی ممالک میں تعینات ہیں، جن میں 2 کویت، اور ایک ایک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں موجود ہیں۔
سعودی عرب اور کویت میں تعینات ونگز F-15 اور F-16 جیسے جدید لڑاکا طیاروں سے لیس ہیں جبکہ قطر میں قائم فضائی ونگ حملہ آور صلاحیت نہیں رکھتا لیکن یہ انٹیلی جنس، فضائی ایندھن فراہمی، اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا مرکز ہے۔
مزید پڑھیں: ایران امریکی حملوں کا کیا جواب دے سکتا ہے؟ 3 ممکنہ منظرنامے
گزشتہ 18 ماہ میں امریکا نے کویت میں نئے فضائی دفاعی نظام نصب کیے ہیں جبکہ قطر میں ایک اضافی میزائل ڈیفنس سائٹ کی تعمیر کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ امارات میں پہلے ہی امریکا کا THAAD میزائل سسٹم متحرک ہے۔ خطے میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز کی موجودگی بھی مستحکم دفاعی حصار کی صورت رکھتی ہے۔
خلیج فارس میں امریکا کا 5واں بحری بیڑا بحرین میں قائم ہے، جہاں سے وہ خلیج فارس، بحر عرب، اور خلیج عمان تک کی نگرانی کرتا ہے۔ اس بیڑے کا حصہ طیارہ بردار جہاز USS Carl Vinson ہے جو اپنے فضائی اسکواڈرن، تباہ کن میزائل کشتیوں اور آبدوزوں کے ساتھ کسی بھی اندرونی ہدف پر حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکا کی اسپیشل فورسز عراق، شام اور اردن میں بھی محدود پیمانے پر موجود ہیں، جو مقامی اتحادی افواج کے ساتھ انسداد دہشتگردی آپریشنز میں شامل رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سائبر کمانڈ، ڈرون آپریشنز اور خلائی نگرانی کے لیے امریکا نے قطر اور متحدہ عرب امارات میں کلیدی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی حملے کے سنگین نتائج ہوں گے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی
خطے میں یہ تمام عسکری تنصیبات صرف دفاعی حصار نہیں بلکہ جارحانہ کارروائیوں کے لیے بھی مکمل طور پر تیار ہیں۔ ایران کی جانب سے کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کی صورت میں امریکا اپنے ان جنگی اثاثوں کے ذریعے تیز، مہلک اور ہمہ گیر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے موجودہ تناظر میں یہ اثاثے محض عسکری طاقت کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہیں کہ امریکا کسی بھی بڑے تنازع کی صورت میں غیر حاضر نہیں ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
F-15 F-16 THAAD USS Carl Vinson امریکا امریکا کے جنگی اثاثے مشرق وسطیٰ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکا کے جنگی اثاثے میں امریکا امریکا کے موجود ہیں کسی بھی
پڑھیں:
یمنی فوج کا اسرائیل کے بن گوریون ایئرپورٹ ہائپرسانک بیلسٹک میزائل حملہ
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2025 )یمن کی مسلح افواج نے فلسطینیوں کی حمایت میں فلسطین ٹو نامی ہائپرسانک بیلسٹک میزائل کے ذریعے صیہونی حکومت کے سب سے اہم ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا ہے ایرانی نشریاتی ادارے کے مطابق یمنی افواج نے ایک بیان میں اس کارروائی کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ انہوں نے تل ابیب کے قریب واقع بن گوریون ایئرپورٹ کو فلسطین 2 پروجیکٹائل سے نشانہ بنایا.(جاری ہے)
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی اپنے ہدف میں کامیاب رہی اور 40 لاکھ سے زائد صیہونی حملہ آوروں کو پناہ گاہوں میں فرار ہونے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کی سرگرمیاں معطل ہو گئیں یہ حملہ اس فضائی ناکہ بندی کے سلسلے کا حصہ ہے جو یمنی افواج اسرائیلی حکومت پر جنگ کے خاتمے کے لیے دباﺅ ڈالنے کے مقصد سے نافذ کر رہی ہیں اور ساتھ ہی غزہ پر اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلط مکمل محاصرے کے خلاف ایک ردعمل بھی ہے. فضائی ناکہ بندی کے دوران یمنی افواج نے متعدد مواقع پر اس ہوائی اڈے کی طرف ایسے میزائل فائر کیے ہیں اٹلی اور بھارت کی قومی ایئرلائنز نے بن گوریون ایئرپورٹ کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی کو30 ستمبر اور 25 اکتوبر تک توسیع دینے کا اعلان کیا. پروازوں پر پابندیاں مئی میں نافذ کی گئی تھیں جو فلسطینیوں کی حمایت میں یمنی افواج کے اسرائیلی حساس اور اسٹریٹجک اہداف کے خلاف جاری آپریشنز میں ایک اہم اضافہ تھی یہ کارروائیاں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی نسل کشی کے آغاز کے بعد شروع ہوئی تھیں. اس سے قبل اسرائیلی فوجی نامہ نگار ڈورون کادوش نے کہا تھا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران یمنی افواج نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی طرف کم از کم 15 میزائل داغے ہیں انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً ہر 2 دن میں ایک میزائل فائر کیا گیا کادوش کے مطابق مارچ سے اب تک یمنی افواج تقریباً 67 بیلسٹک میزائل اور 18 مسلح ڈرون اسرائیلی اہداف کی جانب فائر کر چکی ہیں. یمنی افواج کے بیان کے مطابق دشمن کی حرکات اور ان کے ان منصوبوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہیںجن کا مقصد یمن کی حمایت روکنا ہے یہ اشارہ اسرائیلی حکومت کے ان شدید حملوں کی طرف تھا جو وہ یمن کے اہم انفرااسٹرکچر پر کر رہی ہے تاکہ صنعا کو فلسطینیوں کی حمایت سے باز رکھا جا سکے تاہم یمنی افواج نے زور دیا کہ وہ اور یمنی عوام انتہائی چوکس اور دشمن کے ہر اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں جب تک کہ وہ ناکام نہ ہو جائیں جیسے کہ پچھلے دور میں دیگر منصوبے سازشیں اور حرکتیں ناکام ہو چکی ہیں.