Express News:
2025-09-20@14:59:16 GMT

ایران کا جذبہ جہاد

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

پڑوسی ملک ایران کے جذبہ جہاد، بہادری، شجاعت اور استقامت کو آج امت مسلمہ سلام پیش کر رہی ہے۔ غزہ میں جہاں بھوک ہے، موت ہے، کسمپرسی ہے، زخمی ابدان ہیں اور معصوم و بے سہارا بلکتے ہوئے بچے گلی کوچوں میں حشرات الارض کی طرح رینگ رہے ہیں، چل رہے ہیں، کسی کو رحم نہیں آیا۔ ایران کے علاوہ تمام ہی ملکوں نے محض اپنے فائدے کے لیے خاموشی اختیار کر لی، وہ سپر طاقتوں سے خوف زدہ ہیں۔

ان کے اسی عمل نے غزہ کے مجاہدین، بچوں اور بوڑھوں کو بے سہارا کر دیا، وہ فریاد کر رہے تھے، لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا، ان کی چیخوں اور آہوں کی آوازیں پوری دنیا میں بلند ہوتی رہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا، اسرائیل نے ان کے دلوں پرگہرے زخم لگائے تھے، وہ غم زدہ تھے اور اپنے مسلم بھائیوں سے فریاد کررہے تھے لیکن آج وہی غزہ کے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں، ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں۔

کہ آج اسرائیل میں بھی کہرام مچا ہوا ہے، مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کے آنسو کفار پونچھ رہے ہیں اور مدد کی پیش کش کر رہے ہیں، غزہ کے معصوم لوگوں کا بدلہ اللہ نے لے لیا ہے اور ابھی تو ابتدا ہوئی ہے، وہ وقت دور نہیں جب یہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

 قرآن کریم نے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا ہے ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو۔‘‘ جب تک مسلمان متحد رہے، توکوئی ان کا بال بیکا نہ کرسکا انھوں نے صدیوں شان و شوکت سے حکومت کی لیکن جب مسلمانوں میں نفاق پیدا ہوگیا اور انھوں نے اتحاد کی اہمیت کو بے معنی قرار دے دیا اور اپنے الگ الگ مسلک بنا لیے، اپنے مسلمان بھائیوں کو بے گانہ سمجھ کر کفارکو دوست بنا لیا اور ان کے ہی رنگ میں رنگ گئے، تب مسلمانوں کے ہاتھوں میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا۔

اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے راستے میں کسی مجاہد کو اسلحہ اور دیگر سامانِ جنگ سے لیس کیا، اس نے گویا کہ خود جنگ میں شرکت کی اور جس نے میدان جنگ میں جہاد پر جانے کے بعد اس کے گھر والوں کی اچھی طرح دیکھ بھال مطلب ان کی ضروریات کا خیال رکھا تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوا۔‘‘

فی زمانہ جہاد کی اہمیت اور ضرورت کو تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے، پسپائی اور ذلت اسی وجہ سے مقدر کا حصہ بنی۔ایک مسلمان کو صرف اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرنا چاہیے، کامیابی و ناکامی اور موت زندگی پر اس کا ہی انحصار ہے، جسے بچانا ہوتا ہے وہ اسے گہرے پانیوں میں بھی زندہ سلامت رکھتا ہے اور جس کا وقت آگیا ہو تو وہ ساحل پر ہی آخری سانس لے کر رخصت ہو جاتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں مسلم ممالک میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو مقابلے کے لیے سامنے آ گیا ہے اور ایمان کی طاقت اس کا مضبوط سہارا ہے، اس وقت اسرائیل بپھرے ہوئے ریچھ سے کم نہیں، وہ ہر قیمت پر ایران سے بدلہ لینے اور اسے شکستِ فاش دینے کے لیے ہر حربہ آزما رہا ہے، امریکا اس کے ساتھ ہے، امریکا ہر اس ملک کے ساتھ ہوتا ہے جو مسلمانوں کا دشمن ہوتا ہے، ہمارے پڑوسی اور بہترین دوست چین کے صدر شی چن پنگ نے واضح طور پر امریکا کو پیغام دیا ہے ’’ اگر امریکا دنیا کا احترام نہیں کرے گا تو سبق سیکھے گا اور اسے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘

اسلام کے دشمنوں نے گزشتہ صدی میں بھی دنیا کے عظیم مسلمان سائنس دانوں کو شہید کردیا تھا تاکہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں اور ترقی کی منزلیں طے کرنا ان کے بس میں نہ رہے۔ اور آج بھی امت مسلمہ کے عظیم سائنس دانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں، اسرائیل نے جنگ کی ابتدا میں ہی سب سے پہلے چھ ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر دیا اور اب چار ایرانی کمانڈرز ایٹمی سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ایران کو بہت عرصے سے ایٹم بم بنانے سے باز رکھنے کے لیے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے تاکہ مغربی ممالک کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔

گزری صدیوں میں بھی مسلم دنیا کے مشہور اور قابل فخر سائنس دانوں کو جبر و قید اور درد ناک حالات کا سامنا کرنا پڑا، ابن رشد جن کا سائنس اور فلسفے کی دنیا میں اہم مقام ہے، ابن رشد بارہویں صدی کے مشہور فلسفی ہونے کے علاوہ ماہرِ فلکیات، ریاضی داں اور ماہر طبیب بھی تھے۔ یورپ کے جدید فلسفے کی بنیاد ان کی تعلیم و فن کے مرہون منت ہے لیکن افسوس اس وقت کے حاکم وقت ابو یوسف کو ابن رشد کے فلسفے سے اختلافات پیدا ہوئے لہٰذا چند کتابوں کے علاوہ ان کا تمام علمی خزانہ نذر آتش کر دیا گیا اور ابن رشد نے اپنی زندگی کا آخری حصہ گمنامی میں گزارا۔

یعقوب کندی کا نام بھی فلسفہ، طب، کیمیا اور علم فلکیات میں اہمیت کا حامل ہے لیکن یہاں بھی معاملہ مختلف نہیں تھا۔ اعلیٰ دماغ رکھنے والوں کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ خلیفہ متوکل نے یعقوب کندی کی برسوں کی محنت و تحقیق پر مبنی کتابوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور بازار میں محض اپنے منفی نظریات کی بنا پر اس عظیم محقق کو سرِ بازار کوڑوں کی سزا دی اور بھی کئی نام سائنس کی دنیا میں اپنے کارناموں کی وجہ سے چمک رہے ہیں۔

یہ تو مسلم حکمران تھے جنھوں نے علم و دانش اور علما و اساتذہ کی قدر نہیں کی۔ کفار تو کفار ہیں وہ کیوں حوصلہ افزائی کریں گے۔ اہل مغرب کو مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے، امریکا فلسطین میں اسرائیل کی دہشت گردی میں اضافے ؐکے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔اس کے ساتھ ہی اب اس نے اپنا رخ اسرائیل کی جنگی جارحیت کی طرف موڑ لیا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ دونوں ممالک ایک سکّے کے دو رخ ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

صدر ٹرمپ کینیڈا میں جی سیون کے دو روزہ اجلاس میں شریک تھے لیکن وہ اجلاس کی مزید کارروائی میں شامل نہ رہ سکے بلکہ واشنگٹن واپس چلے گئے، انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے کہا فرانسیسی صدر میکرون کا بیان غلط ہے اور وہ اسرائیل، ایران جنگ بندی کی کوئی تجویز پیش کرنے والے نہیں ہیں۔دو روز قبل کینیڈا میں منعقد ہونے والی جی سیون کانفرنس میں امریکا کے سوا چھ ممالک کینیڈا، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جاپان جنگ بندی کرانے کے حامی تھے لیکن امریکا ایسے کسی بیان کا حصہ بننے کے لیے تیار نہ تھا۔

ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی دوسری بڑی وجہ عرب ممالک کی خاموشی ہے وہ ان حالات میں بھی ایران کا بھرپور طریقے سے ساتھ دینے کے بجائے امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اسی بے حسی کی وجہ سے صیہونی طاقتیں جس ملک پر چاہیں حملہ کر کے اسے تہ و بالا کر سکتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سائنس دانوں کو دنیا میں انھوں نے میں بھی رہے ہیں ہے اور کر دیا کے لیے

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • کسی گروہ کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق نہیں، جسے شوق ہے فوج جوائن کرے، طاہر اشرفی
  • افغانستان نے بگرام ائربیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کرنے کا امکان سختی سے مسترد کردیا
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • افغان طالبان کا بگرام ائربیس امریکا کودینے سے صاف انکار          
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • چاہ بہار پورٹ پابندی: بھارت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
  • جہاد کا اعلان صرف ریاست کا اختیار ہے، کسی گروہ یا فرد کو اجازت نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد