پڑوسی ملک ایران کے جذبہ جہاد، بہادری، شجاعت اور استقامت کو آج امت مسلمہ سلام پیش کر رہی ہے۔ غزہ میں جہاں بھوک ہے، موت ہے، کسمپرسی ہے، زخمی ابدان ہیں اور معصوم و بے سہارا بلکتے ہوئے بچے گلی کوچوں میں حشرات الارض کی طرح رینگ رہے ہیں، چل رہے ہیں، کسی کو رحم نہیں آیا۔ ایران کے علاوہ تمام ہی ملکوں نے محض اپنے فائدے کے لیے خاموشی اختیار کر لی، وہ سپر طاقتوں سے خوف زدہ ہیں۔
ان کے اسی عمل نے غزہ کے مجاہدین، بچوں اور بوڑھوں کو بے سہارا کر دیا، وہ فریاد کر رہے تھے، لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا، ان کی چیخوں اور آہوں کی آوازیں پوری دنیا میں بلند ہوتی رہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا، اسرائیل نے ان کے دلوں پرگہرے زخم لگائے تھے، وہ غم زدہ تھے اور اپنے مسلم بھائیوں سے فریاد کررہے تھے لیکن آج وہی غزہ کے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں، ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں۔
کہ آج اسرائیل میں بھی کہرام مچا ہوا ہے، مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کے آنسو کفار پونچھ رہے ہیں اور مدد کی پیش کش کر رہے ہیں، غزہ کے معصوم لوگوں کا بدلہ اللہ نے لے لیا ہے اور ابھی تو ابتدا ہوئی ہے، وہ وقت دور نہیں جب یہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
قرآن کریم نے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا ہے ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو۔‘‘ جب تک مسلمان متحد رہے، توکوئی ان کا بال بیکا نہ کرسکا انھوں نے صدیوں شان و شوکت سے حکومت کی لیکن جب مسلمانوں میں نفاق پیدا ہوگیا اور انھوں نے اتحاد کی اہمیت کو بے معنی قرار دے دیا اور اپنے الگ الگ مسلک بنا لیے، اپنے مسلمان بھائیوں کو بے گانہ سمجھ کر کفارکو دوست بنا لیا اور ان کے ہی رنگ میں رنگ گئے، تب مسلمانوں کے ہاتھوں میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا۔
اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے راستے میں کسی مجاہد کو اسلحہ اور دیگر سامانِ جنگ سے لیس کیا، اس نے گویا کہ خود جنگ میں شرکت کی اور جس نے میدان جنگ میں جہاد پر جانے کے بعد اس کے گھر والوں کی اچھی طرح دیکھ بھال مطلب ان کی ضروریات کا خیال رکھا تو وہ بھی جنگ میں شریک ہوا۔‘‘
فی زمانہ جہاد کی اہمیت اور ضرورت کو تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے، پسپائی اور ذلت اسی وجہ سے مقدر کا حصہ بنی۔ایک مسلمان کو صرف اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرنا چاہیے، کامیابی و ناکامی اور موت زندگی پر اس کا ہی انحصار ہے، جسے بچانا ہوتا ہے وہ اسے گہرے پانیوں میں بھی زندہ سلامت رکھتا ہے اور جس کا وقت آگیا ہو تو وہ ساحل پر ہی آخری سانس لے کر رخصت ہو جاتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں مسلم ممالک میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو مقابلے کے لیے سامنے آ گیا ہے اور ایمان کی طاقت اس کا مضبوط سہارا ہے، اس وقت اسرائیل بپھرے ہوئے ریچھ سے کم نہیں، وہ ہر قیمت پر ایران سے بدلہ لینے اور اسے شکستِ فاش دینے کے لیے ہر حربہ آزما رہا ہے، امریکا اس کے ساتھ ہے، امریکا ہر اس ملک کے ساتھ ہوتا ہے جو مسلمانوں کا دشمن ہوتا ہے، ہمارے پڑوسی اور بہترین دوست چین کے صدر شی چن پنگ نے واضح طور پر امریکا کو پیغام دیا ہے ’’ اگر امریکا دنیا کا احترام نہیں کرے گا تو سبق سیکھے گا اور اسے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘
اسلام کے دشمنوں نے گزشتہ صدی میں بھی دنیا کے عظیم مسلمان سائنس دانوں کو شہید کردیا تھا تاکہ مسلمان آگے نہ بڑھ سکیں اور ترقی کی منزلیں طے کرنا ان کے بس میں نہ رہے۔ اور آج بھی امت مسلمہ کے عظیم سائنس دانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں، اسرائیل نے جنگ کی ابتدا میں ہی سب سے پہلے چھ ایٹمی سائنس دانوں کو شہید کر دیا اور اب چار ایرانی کمانڈرز ایٹمی سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ایران کو بہت عرصے سے ایٹم بم بنانے سے باز رکھنے کے لیے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے تاکہ مغربی ممالک کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔
گزری صدیوں میں بھی مسلم دنیا کے مشہور اور قابل فخر سائنس دانوں کو جبر و قید اور درد ناک حالات کا سامنا کرنا پڑا، ابن رشد جن کا سائنس اور فلسفے کی دنیا میں اہم مقام ہے، ابن رشد بارہویں صدی کے مشہور فلسفی ہونے کے علاوہ ماہرِ فلکیات، ریاضی داں اور ماہر طبیب بھی تھے۔ یورپ کے جدید فلسفے کی بنیاد ان کی تعلیم و فن کے مرہون منت ہے لیکن افسوس اس وقت کے حاکم وقت ابو یوسف کو ابن رشد کے فلسفے سے اختلافات پیدا ہوئے لہٰذا چند کتابوں کے علاوہ ان کا تمام علمی خزانہ نذر آتش کر دیا گیا اور ابن رشد نے اپنی زندگی کا آخری حصہ گمنامی میں گزارا۔
یعقوب کندی کا نام بھی فلسفہ، طب، کیمیا اور علم فلکیات میں اہمیت کا حامل ہے لیکن یہاں بھی معاملہ مختلف نہیں تھا۔ اعلیٰ دماغ رکھنے والوں کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ خلیفہ متوکل نے یعقوب کندی کی برسوں کی محنت و تحقیق پر مبنی کتابوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور بازار میں محض اپنے منفی نظریات کی بنا پر اس عظیم محقق کو سرِ بازار کوڑوں کی سزا دی اور بھی کئی نام سائنس کی دنیا میں اپنے کارناموں کی وجہ سے چمک رہے ہیں۔
یہ تو مسلم حکمران تھے جنھوں نے علم و دانش اور علما و اساتذہ کی قدر نہیں کی۔ کفار تو کفار ہیں وہ کیوں حوصلہ افزائی کریں گے۔ اہل مغرب کو مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے، امریکا فلسطین میں اسرائیل کی دہشت گردی میں اضافے ؐکے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔اس کے ساتھ ہی اب اس نے اپنا رخ اسرائیل کی جنگی جارحیت کی طرف موڑ لیا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ دونوں ممالک ایک سکّے کے دو رخ ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
صدر ٹرمپ کینیڈا میں جی سیون کے دو روزہ اجلاس میں شریک تھے لیکن وہ اجلاس کی مزید کارروائی میں شامل نہ رہ سکے بلکہ واشنگٹن واپس چلے گئے، انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے کہا فرانسیسی صدر میکرون کا بیان غلط ہے اور وہ اسرائیل، ایران جنگ بندی کی کوئی تجویز پیش کرنے والے نہیں ہیں۔دو روز قبل کینیڈا میں منعقد ہونے والی جی سیون کانفرنس میں امریکا کے سوا چھ ممالک کینیڈا، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جاپان جنگ بندی کرانے کے حامی تھے لیکن امریکا ایسے کسی بیان کا حصہ بننے کے لیے تیار نہ تھا۔
ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی دوسری بڑی وجہ عرب ممالک کی خاموشی ہے وہ ان حالات میں بھی ایران کا بھرپور طریقے سے ساتھ دینے کے بجائے امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اسی بے حسی کی وجہ سے صیہونی طاقتیں جس ملک پر چاہیں حملہ کر کے اسے تہ و بالا کر سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سائنس دانوں کو دنیا میں انھوں نے میں بھی رہے ہیں ہے اور کر دیا کے لیے
پڑھیں:
دکھ روتے ہیں!
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔