ایرانی ایٹمی تنصیبات ہر حملہ، سعودی عرب نے خلیجی فضا تابکاری سے محفوظ قرار دیدی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
سعودی عرب کی نیوکلیئر اینڈ ریڈیالوجیکل ریگولیٹری کمیشن نے اتوار کے روز اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد خلیجی خطے یا سعودی عرب میں کسی قسم کی تابکار اثرات کی موجودگی نہیں پائی گئی۔
کمیشن نے اپنے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ “ایکس” پر جاری بیان میں واضح کیا کہ امریکی کارروائی کے باوجود مملکت اور عرب خلیجی ممالک کے ماحول میں کوئی تابکار اثرات ریکارڈ نہیں کیے گئے۔
اسی حوالے سے کویت کی نیشنل گارڈ نے بھی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے فضائی اور بحری حدود میں ریڈی ایشن کی سطح معمول کے مطابق ہے اور صورت حال بالکل معمول کے مطابق ہے۔ یہ اعلان کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کونا (KUNA) کے ذریعے کیا گیا۔
ادھر مصر کی نیوکلیئر اور ریڈیالوجیکل ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی اتوار کو تصدیق کی کہ ایران میں یورینیم کی افزودگی اور تبدیلی کی جو جوہری تنصیبات نشانہ بنائی گئی ہیں، ان سے مصر کو کوئی براہ راست اثر نہیں پہنچا۔
واضح رہے کہ امریکا نے اتوار کے دن ایران کے تین اہم جوہری مراکز پر حملے کیے جن میں زیرِ زمین یورینیم افزودگی کا مرکز ’فردو‘ بھی شامل تھا۔ یہ حملے کئی دنوں کی قیاس آرائیوں کے بعد کیے گئے جب یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ آیا امریکا اسرائیل کی جاری بمباری مہم میں براہ راست شامل ہوگا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
دوحہ حملہ، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنیکی طرف ایک اور قدم
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
الجزیرہ کے امریکی میزبان کو انٹرویو دیتے ہوئے جان میرشیمر نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر دو افراد کی ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔ امریکی نظریہ ساز کا کہنا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا صیہونی حکومت کا بنیادی ہدف ہے لیکن ایران اس سے روک رہا ہے۔ الجزیرہ کے باٹم لائن پروگرام کے امریکی میزبان اسٹیو کلیمنز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے قطر اور خطے پر حملہ کرنے میں اسرائیل کے اہداف کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میرشیمر نے کہا کہ امریکی ورلڈ آرڈر کی موجودہ صورتحال واقعی خوفناک اور واقعی ناقابل یقین ہے، آئیے ایک لمحے کے لیے مشرق وسطیٰ کی طرف رجوع کریں، میری رائے میں، وہاں سب سے اہم مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ غزہ میں نسل کشی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ اسرائیلی، امریکہ اور یورپی یونین کی مدد سے، غزہ میں قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوحہ پر اسرائیلی حملے کا مقصد حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا تھا، حملے کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ غزہ کے تنازع کا کوئی مذاکراتی حل نہیں ہے، تاکہ اسرائیلی غزہ میں اپنی نسل کشی جاری رکھ سکیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے مزید کہا کہ دوسرا بہت اہم موضوع یہ ہے کہ اسرائیلی غالباً اس موسم خزاں میں دوسری بار ایران پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اور اگر آپ یورپ کی طرف توجہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا، کہ روسی یوکرینیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں، یہ تقریباً یقینی ہے کہ میدان جنگ میں روسی ہی جیت جائیں گے، اور یہ سب سے اہم بات ہے، جو یورپ کے لئے خطرہ اس بحران کو بڑھانا ہے، پولینڈ کی طرف جانے والے ڈرونز اس کی مثال ہیں۔
میزبان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا، "قطر کو نتن یاہو نے دھوکہ دیا، اور اب خطے میں قطر کے دفاعی تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، قطر میں 10,000 امریکی فوجی موجود ہیں، اگر آپ قطر یا دیگر خلیجی ممالک میں سے کوئی ہوتے تو آپ اسے کیسے دیکھتے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسے ان کے نقطہ نظر سے دیکھوں تو میں واقعی پریشان ہو جاؤں گا، اس میں کوئی شک نہیں، بالکل وہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، قطری جو کچھ ہوا اس سے واقعی پریشان ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی جو چاہیں کر سکتے ہیں اور امریکہ ہر قدم پر ان کی حمایت کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدہ ہے اور وہ ابراہیم معاہدے کو فوری طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اس سے ایک واضح اشارہ ملے گا اور پھر یہ تینوں ممالک اور خطے کے دیگر ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں اور امریکہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ (قطر پر حملہ) ناقابل قبول ہے (لیکن) ان کو سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا۔
اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں علاقائی عزائم ہیں۔ وہ امریکہ میں اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں، اسرائیلی سعودی عرب سے ابراہم معاہدہ چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، میری رائے میں دوحہ پر حملہ اسرائیل پر حملہ نہیں ہے۔ خلیجی ریاستوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے لیکن یہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملہ ہیں جن کی فہرست میں نے دی ہے، کیونکہ یہ ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔
قطر پر حملے کے بارے میں انہوں نے پھر کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر ایک دو رکنی ٹیم ہیں۔ وہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے، امریکہ اس کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں کیا ہوا کہ اسرائیلیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیلیوں کا بنیادی مفاد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات نہ ہوں جو تنازعہ کو حل کرنے جا رہے ہوں یا غزہ کے تنازع کو حل کرنے کے قریب پہنچیں، اس لیے مذاکرات کاروں کو مارنے سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس حملے میں (دوحہ پر) امریکہ ملوث تھا اور انہوں نے مل کر اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن میرے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا ہوگا، یا اگر وہ ہمیں نہ بتاتے، تو ہم اس کا اندازہ نہ لگا پاتے۔
مشرق وسطیٰ میں ہماری انٹیلی جنس صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، وہ یقینی طور پر نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسا کوئی حملہ ہونے والا ہے؟ یقینا، میرے خیال میں اسرائیلیوں نے ہمیں بتایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ یا انتظامیہ میں کسی اور نے جو اس کا ذمہ دار تھا اسرائیلیوں کو بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے؟ اس کا جواب "نہیں ہے، ہم نے بنیادی طور پر اس حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھا اور اب ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے ہر طرح کا شور مچا رہے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، لیکن ہم نے یہ کیا (اسرائیل کو دوحہ پر حملہ کرنے کے لیے گرین سگنل دیا) اور اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں اور ہم انھیں دوبارہ کرنے دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی فیصلے کر رہے ہیں، اور بنجمن نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے درمیان طاقت کے توازن میں، نیتن یاہو زیادہ مضبوط کھلاڑی ہیں، یقیناً یہ حیران کن نہیں ہے۔ آپ اسٹیون (والٹ) کو جانتے ہیں، اسٹیو اور میں نے کتاب 'دی اسرائیل لابی' لکھی تھی اور ہم نے اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ غیرمعمولی تعلقات کی تاریخ میں ایک خاص بات ہے، اسرائیلیوں کی چھوٹی انگلی پر صدر ٹرمپ ناچ رہے ہیں (ان کا ٹرمپ پر مکمل کنٹرول ہے) اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ صدر ٹرمپ باقی دنیا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور انہیں ہفتے میں دنیا والوں کو کم از کم ایک تھپڑ مارتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اسرائیلیوں پر ایسا یا ویسا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے، وہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ پچھلے امریکی صدور نے کیا ہے۔