آسانی سے معاف نہیں کرتی، والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگے:جیا علی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)ماضی کی مقبول اداکارہ جیا علی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو آسانی سے معاف نہیں کر پاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگ گئے۔
ڈان کے مطابق حال ہی میں جیا علی نے توثیق حیدر کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔
ایک سوال کے جواب میں جیا علی نے بتایا کہ وہ پاکستانی ڈرامے یا فلمیں نہیں دیکھتیں اور اس میں اُن کے اپنے ڈرامے بھی شامل ہیں۔
اداکارہ کے مطابق اس کی کوئی خاص وجہ نہیں، بس انہیں لگتا ہے کہ زیادہ تر ڈراموں میں ایک جیسی کہانیاں ہوتی ہیں، جیسے کہ ساس بہو کے جھگڑے، جنہیں وہ دیکھنا پسند نہیں کرتیں، البتہ انڈسٹری کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ بعض اوقات ایسے ڈراموں میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈراموں میں بہت کم کام کرتی ہیں، کیونکہ انہیں ان کرداروں سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔
جیا علی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن اور لکڑی کے چمچ استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی سے کیمیکلز کا استعمال کم کر دیا ہے، ان کا کھانا مٹی کے برتنوں میں تیار ہوتا ہے اور وہ برتن سوڈا اور لیموں سے دھوئے جاتے ہیں، وہ نہیں چاہتیں کہ مصنوعی مواد ان کے کھانے میں شامل ہو۔
اداکارہ نے مزید بتایا کہ انہیں اپنے والد کو معاف کرنے میں کئی دہائیاں لگیں، ان کے والدین کے درمیان کشیدہ تعلقات تھے اور بعد میں ان کی طلاق ہوگئی۔
جیا علی کے مطابق، انہوں نے اپنے والدین کے رشتے میں تشدد بھی دیکھا اور اگرچہ ان کی والدہ انہیں ہمیشہ والد سے ملنے کی ترغیب دیتی رہیں، لیکن انہیں اس رشتے کو بہتر بنانے اور نارمل محسوس کرنے میں کئی سال لگے۔
مزیدپڑھیں:ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے امریکا کیلئے نئی جنگ کا آغاز کردیا،دمتری میدویدیف
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جیا علی نے انہوں نے
پڑھیں:
ہلکان کرتی چہ مگوئیاں اور فیلڈ مارشل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور بھارت کے درمیان معرکہ بنیان مرصوص اور رس سندھور کے فاتح اور ہیرو پاکستان فوج کے سر براہ نے تائید ایزدی سے حیران کن فتح پائی، ان کی کامیابی سے ان کے عہدے میں ترقی اور بین الاقوامی پسندیدگی کے دروازے ان پر کھل گئے اور فائیو اسٹار جنرل بنا کر فیلڈ مارشل بنادیے گئے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر مقدر کے دھنی ہیں عمران خان اپنی حکومت میں ان کو آرمی چیف نہیں بنانا چاہتے تھے قدرت نے بنا دیا اور پھر چپڑی اور دو دو کا معاملہ بھی آسانی سے ہو گیا کہ عہدے کی معیاد جو تین سال ہوتی ہے بڑھا کر پانچ سال اور قابل توسیع بدستور ہو گئی یوں پنجتنی بھی ہو گئے جو ایک مکتب فکر کے نزدیک نیک شگون ہے۔
پاک بھارت جنگ میں ان کی مہارت نے امریکا کے صدر ٹرمپ کو بھی ان کا گرویدہ کردیا کہ انہوں نے فتح کی سر شاری کے باوجود صدر امریکا کی جنگ بندی کی بات مان لی اور یوں امریکی صدر کے ظہرانہ کے حقدار بن گئے۔ امریکا کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بغیر مطلب کہ پانی کا گھونٹ بھی نہیں پلاتا۔ کہتے ہیں سربراہان پاکستان کو چھوڑ کر فیلڈ مارشل کی دعوت نے نئی تاریخ رقم کی ہے تو انہیں احساس محرومی ہی ہونا ہے جو ہو رہا ہے اور خدشات ان کے ذہنوں میں اُبل رہے ہیں کہ ملک میں مارشل لا امریکا کی آشیر باد سے لگتے تھے ہیں تو کہیں ان کے اقتدار کا جو ویسے بھی نام نہاد ہی ہے کا دھڑن تختہ نہ ہو جائے، اب چہ مگوئیاں ان کو ہلکان کر رہی ہیں کہ ملک میں مارشل لا اور ٹیکنوکریٹ حکمرانی کی تیاری ہے۔ اقتدار کے چسکے کے موالی کہہ رہے ہیں چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی کیا کریں گے اقتدار کے بعد ہم تو تابع دار ہیں سر کار کے۔ بھارت میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ برسوں کے امریکا سے یارانہ رہا۔ بنگلا دیش اور شام کی طرح پر اسرار حکومتی تبدیلی اب پاکستان کسی بڑے امریکی مفاد اور منصوبہ کا حصہ بن سکتی ہے۔ بنگلا دیش کی تبدیلی نے بھارت کو زچ کیا تو شام کی تبدیلی اسرائیل کو ایران پر حملہ میں راہداری کا کام کیا۔ پاکستان میں تبدیلی کے بعد ایران میں رضا شاہ پہلوی خاندان کو اقتدار پر واپس بٹھانے کا سامان اور استحکام کا چکر تو نہیں چل رہا ہے۔
پتا کھڑکا دل میرا دھڑکا کی صورت حال سے فارم 47 کی حکومت دوچار ہے پاکستان نے ایران سے ملحقہ بارڈر 250 کوریڈور کو فوراً بند کردیا کہ افغانیوں کی طرح ایرانی بھی پاکستان میں گھس بیٹھیے نہ ہو جائیں! فیلڈ مارشل عاصم منیر کا فرمان کہ جلد دنیا دیکھے گی کئی اہم چیزیں رونما ہوں گی اور اگلے پانچ برسوں میں پاکستان تیزی سے ترقی کرے گا کی کھوجنا ہر اک اپنے حساب سے کر رہا ہے اور امریکا کے صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کے بعد ٹرمپ کایہ کہنا کہ وہ ایران کو اچھی طرح جانتے ہیں کا مطلب صاف ہے اس کی موجودہ قیادت ناقابل معافی ہے۔ مگر کیا ایران کو ماضی طرف ہی لوٹانے کی رجیم چینج ہے یا پس پردہ نئی ابھرتی قوت چین کو بے دست پا کرنا ہے۔ عاصم منیر صاحب بہت نازک ہے یہ کار گہ شیشہ گری۔