اسلام ٹائمز: ہر پاکستانی کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ ہماری ریاست کسی کی آلہ کار بن کر کام کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لئے یہ سوال اہم نہیں کہ آگے چل کر امریکی و اسرائیلی حملوں کا عام مسلمان دنیا بھر میں جواب کیسے دیں گے اور مستقبل میں جب اسرائیل اپنا اگلا نشانہ پاکستان کو بنائے گا تو پاکستان کے دفاع کیلئے ہمسایہ ممالک کا رویّہ کیسا ہوگا؟ ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ اُس وقت امریکہ پاکستان کی سیاسی و اخلاقی مدد کرے گا یا وہ بھی نہیں؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

امریکی صدر نے تصدیق کی ہے کہ ہم نے ایران کی 3 نیوکلیئر سائٹس پر کامیاب حملہ مکمل کرلیا ہے، امریکی طیاروں نے فردو، نظنز اور اصفہان میں نیوکلیئر پلانٹس کو نشانہ بنایا۔ او آئی سی میں شامل ممالک کی مدد کے بغیر امریکہ یہ حملہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ممالک تو سرِ عام اپنی بیٹیاں تک امریکہ و اسرائیل کو پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے لہذا ایران پر امریکی حملے نے عربوں کے بجائے  سب سے زیادہ عجمیوں کو اور اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے عجمیوں میں سے بھی سب سے زیادہ پاکستانیوں کو پریشان کیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ کیا پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا تھا؟ ایران پر امریکی حملے کے بعد دنیا بھر میں امریکی شہری غیر محفوظ ضرور ہوگئے، مگر پاکستان کا تو  نظریاتی تشخص، سفارتی توازن، اور جغرافیائی وقار خطرے میں پڑ گیا ہے۔پاکستانیوں کیلئے امریکہ صدر کا یہ اعلان انتہائی غیر معمولی نوعیت کا ہے کہ امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کر دی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ طے ہوگیا ہے کہ  افغان جنگ کے بعد پاکستان نے ایک مرتبہ پھر منطقے میں  امریکی شطرنج کے مہرے کا کردار ادا  کرنا ہے، خدا  کرے ایسا نہ ہو۔

ہماری نیک خواہشات پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی میں پاکستان نے ہندوستان اور طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات امریکہ پر اعتماد کرکے ہی خراب کئے ہیں۔ یہ خراب تعلقات سب کے سامنے مسئلہ کشمیر اور آبی مسائل پر پاکستان کی شکست پر منتہج ہوئے۔ ابھی جون 2025ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان نے امریکہ پر اعتماد کرکے ایران اور چین کی نظروں میں بھی اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔ اس صورتحال سے اشرافیہ تو مطمئن ہے لیکن عام پاکستانی پریشان ہیں چونکہ اب اس منطقے میں چاروں طرف سے پاکستان تنہا ہوکر فقط امریکہ کے رحم و کرم پر رہ گیا ہے۔ پاکستانی فیلڈ مارشل کے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ایران پر امریکی حملے سے پاکستان کے بارے میں دنیا میں جو پیغام گیا ہے کیا اُس کے اثرات سے پاکستان کبھی نکل پائے گا؟

 بعض لوگوں کے نزدیک امریکی جنگی طیاروں کے ایران پر حملہ کرنے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی لیکن پاکستان نے عالمی برادری اور خطے کے ممالک کے درمیان اپنا جو وزن اور اعتماد کھویا ہے وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے پاکستان کا اعتماد، وقار اور علاقائی اہمیت مٹی میں مل گئی۔ ایران پر امریکی حملے نے پاکستان کے ایٹمی رعب، پلاننگ اور اسٹیٹجک کے لحاظ سے دنیا کی نظروں میں گرا دیا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھارت اور طالبان سے اپنے تعلقات صرف امریکہ کی خوشنودی کے لیے خراب کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ کشمیر بچا، نہ پانی، نہ قومی وقار اور اب ایٹمی و عسکری طاقت ہونے کا رُعب بھی گیا۔ ملکی اقتصاد کے لحاظ سے بھی یہ ایک اہم سوال ہے کہ امریکی جیت کی خاطر اپنی علاقائی اہمیّت کا سودا ایک تجارت ہے یا جوا؟

اس جوئے کی دوڑ میں امریکہ کا تازیانہ ہمیں بھارت، افغانستان، ایران اور چین سے بہت دور لے گیا ہے۔ اتنے دور کہ ہم صرف ہمسایہ ممالک سے دور نہیں ہوئے بلکہ اپنے عوام سے بھی بہت دور ہوگئے۔ ہم اپنے عوام سے اتنے دور نکل چکے ہیں کہ اب عنقریب آبی مسائل اور کشمیر کے ایشو پر ہمیں از سرِنو بھارت سے لڑوایا جائے گا۔ ہم بھارت سے لڑیں گے، ٹیکس مزید لگیں گے، مہنگائی مزید عروج پر جائے گی، لوگ فاقوں سے مریں گے، اوپر سے بھارت سرحدی علاقوں میں سول آبادیوں پر حملے  کرے گا اور پاک فوج کے جوان اور سویلین دونوں شہید ہوں گے، اس کے بعد ہمیشہ کی طرح امریکہ اُن لوگوں کی کچھ مدد وغیرہ کرے گا جن کی وہ کرتا رہتا ہے، یوں ان مسائل میں الجھ کر لوگ ہمیشہ کی طرح ملکی مسائل بھول جائیں گے۔ ہمارے ہاں یہ نسخہ اگرچہ آزمودہ اور مجرب ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ کارگر بھی ہو۔ کشمیر کا مقدمہ ہو یا دریاؤں کا مستقبل، پاکستان کی کمزوری اب صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ پاکستان کے وقار اور قومی تشخص کا مسئلہ بھی بن گئی ہے۔

حالات سے لگ رہا ہے کہ اندرونِ خانہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ فی الحال اپنے قومی تشخص کو ایک طرف رکھ کر امریکی و اسرائیلی تشخص اور عزت و وقار کی جنگ لڑی جائے۔ اب ایسی جنگوں کے ایک کونے کو بھارت سے جوڑ کر انہیں قوموں جنگوں کا ٹائٹل دے دینا ہی ہمارے ہاں عین سیاست ہے۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ سیاست کی دنیا میں جب کوئی ریاست اپنے قومی و سیاسی نظریات سے دستبردار ہو جائے تو وہ دوسروں کے نظریاتی مفادات کیلئے اُن کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ بہرحال ہر پاکستانی کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ ہماری ریاست کسی کی آلہ کار بن کر کام کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لئے یہ سوال اہم نہیں کہ آگے چل کر امریکی و اسرائیلی حملوں کا عام مسلمان دنیا بھر میں جواب کیسے دیں گے اور مستقبل میں جب اسرائیل اپنا اگلا نشانہ پاکستان کو بنائے گا تو پاکستان کے دفاع کیلئے ہمسایہ ممالک کا رویّہ کیسا ہوگا؟ ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ اُس وقت امریکہ پاکستان کی سیاسی و اخلاقی مدد کرے گا یا وہ بھی نہیں؟

ہم ایسے سوالات اس لئے نہیں سوچتے کہ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ سوچتے بھی ہوں لیکن وہ مطمئن ہوں کہ ایسے میں پاکستان کا ایٹم بم پاکستان کے کام آئے گا۔ ایسے سادہ دل یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایٹم بمب آج بھی محفوط ہاتھوں میں ہے اور وہ  ہمیشہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گا لہذا اُس وقت بھی اُس کی حفاظت کی خاطر اُسے آج کی طرح محفوظ ہی رکھا جائے گا۔ وطنِ عزیز کیلئے سلامتی کی تمام تر دعاوں کے باوجود ہمیں صرف یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ جو قومیں دوسروں کی سوچ اور دوسروں کے فیصلوں کے تابع ہو جاتی ہیں، اُن کی اپنی شکل اور حُلیہ بگڑ جاتا ہے۔ ہمیں یہ کھٹکا اس لئے بھی لگا ہوا ہے کہ  کیا پاکستان اتنا کمزور ہے کہ واشنگٹن نے اسلام آباد کو اعتماد میں لیے بغیر تہران پر حملہ کر دیا؟ یا پھر ہمارے فیلڈ مارشل کو ٹرمپ نے بلا کر کھانا کھلایا اور پھر دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ پاکستان وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا جاتا ہے؟ کیا ہماری ریاست اتنی نابالغ ہے کہ اس نے سوچنے اور فیصلے کرنے کا اختیار کسی اور کو سونپ رکھا ہے؟

پاکستان بلکہ دنیا کے ہر باشعور شخص کے نزدیک ایران پر امریکہ کا حملہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ یہ امریکہ کا انتخاب ہے اور امریکہ پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر ایسا  انتخاب نہیں کر سکتا۔ اس حملے سے پہلے امریکہ کا پاکستان کو اعتماد میں لینا پاکستان کیلئے کتنی بداعتمادیوں کو جنم دے گا، اس سے امریکہ و اسرائیل کو کوئی غرض بھی نہیں۔ لہذا عقلا کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر مرض کا علاج ممکن ہے، مگر شرط یہ ہے کہ مریض کو اپنی بیماری کا ادراک ہو۔ بیماری صرف تشخیص سے ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ اس کا علاج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک آج بھی پاکستان کے تمام تر مسائل کے ذمہ دار سیاستدان ہیں لیکن صرف امریکی سیاستدان۔ یہ پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر کچھ کرتے ہی نہیں اور کچھ کر سکتے بھی نہیں، وہ چاہے افغانستان پر حملہ ہو یا ایران پر۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان کو اعتماد میں ایران پر امریکی حملے پاکستان کی پاکستان نے سے پاکستان پاکستان کے پاکستان کا کہ پاکستان امریکہ کا بھی نہیں یہ ممالک ہے کہ ہم پر حملہ نہیں کہ سے بھی کے بعد ہیں کہ کرے گا گیا ہے

پڑھیں:

چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل

چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز

بیجنگ : “اعلی ترین نیکی پانی کی مانند ہے، جو تمام چیزوں کو بغیر کسی مقابلے کے فائدہ پہنچاتی ہے ” ۔ دو ہزار پانچ سو سال پہلے لاؤزے کا یہ حکیمانہ قول آج بھی چین کے عالمی نظریہ اور سفارتی اصولوں کی بنیاد پر کندہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا عالمی نظریہ ہے جو “چوٹی پر شہر” کی برتری کی نفسیات اور پوری دنیا کے مفادات پر قبضے کی روایت سے عبارت ہے۔ ان دو واضح تہذیبی اختلافات کا اکیسیوں صدی کے عالمی منظر نامے پر گہرا اثر ہے۔ پانی، جو چینی ثقافت میں ایک علامتی عنصر ہے، اور یہ” بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچانے ” کی خصوصیت کی وجہ سے ایک مثالی سماجی حکمرانی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ چینی تہذیب کے جامع عالمی نظریے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ منگ خاندان کے دور میں چنگ حہ کے سات سمندری سفر، جن میں وہ دنیا کے سب سے طاقتور بحری بیڑے کی قیادت کر رہے تھے،

مگر انہوں نے ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا، نہ ہی کوئی فوجی اڈہ قائم کیا، بلکہ “زیادہ دینے اور کم لینے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی اور تہذیب کو پھیلایا، اس عالمی نظریے کا زندہ اظہار ہے۔ اس کے برعکس آدھی صدی بعد شروع ہونے والے مغربی تہذیب کے سمندری دور میں نوآبادیات، غلامی اور وسائل کی لوٹ مار شامل تھی۔ ان دو رویوں کے پیچھے تہذیبی جینز کا بنیادی فرق ہے ۔ ایک طرف “ہر تہذیب کا احترام” کی متوازن رفاقت ہے تو دوسری طرف “زیرو سم گیم” کا جنگلی قانون۔ چنگ حہ کے سمندری سفر سے لے کر موجودہ دور کے “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے “مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک” کے اصول تک، چین نے کبھی بھی اپنی ترقی کو دوسرے ممالک کے استحصال پر قائم نہیں کیا۔ “پوری دنیا کی بھلائی” کا یہ جذبہ ،انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کی صورت میں عروج پر پہنچ گیا ہے ۔

یہ تصور خصوصی گروہوں کے اتحاد کی بجائے تہذیبی مکالمے کی وکالت، تہذیبوں کی درجہ بندی کے بجائے کثیر وجودیت کے فروغ ، اختلافات میں مشترک چیزوں کی تلاش اور باہمی بقا میں مشترکہ فوائد کے حصول کا احاطہ کرتا ہے۔اس کے برعکس امریکہ کی عالمی حکمت عملی ہمیشہ ” نمبر ون ” کے جنون میں دکھائی دی ہے ۔سرد جنگ کے دور کے “ٹرومین نظریے” سے لے کر نیٹو اتحاد اور موجودہ “انڈو پیسیفک اسٹریٹیجی” تک، امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو دوست اور دشمن کے کیمپوں میں تقسیم کیا ہے، نظریاتی پیمانے پر بین الاقوامی معاشرے کو بانٹا ہے؛ ” نمبر ون ” رہنے کے لیے “امریکہ فرسٹ” اور یکطرفہ پسندی کو کثیر الجہتی تعاون پر ترجیح دی ہے۔ بالادستی کی یہ منطق ظاہری طور پر قلیل مدتی فائدہ دکھاتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے بین الاقوامی معاشرے کا اعتماد مسلسل کھو رہا ہے، اور آخر کار یہ منطق “ہر طرف دشمن پیدا کرنے” کے داخلی بحران میں دھکیل دیتی ہے ۔ ایک گہرا فرق “طاقت اور کمزوری” کے فلسفیانہ ادراک میں بھی پوشیدہ ہے۔ چینی ثقافت اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ ” حقیقی طاقتور لوگ عاجزی اختیار کرتے ہیں، اور سچے اور عقلمند سادگی سے رہتے ہیں ” ۔ اسی لیے چین نے اپنی ترقی کے دوران “کبھی بالادستی نہیں” پر زور دیا ہے، “بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو کے تحت تعاون کے منصوبوں کے ذریعے ترقی کے فوائد کو زیادہ ممالک تک پہنچایا ہے، اور ” سادگی سے رہنے” کی حکمت عملی سے وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کی ہے۔ جبکہ امریکہ “طاقت ہی حق ہے” پر یقین رکھتا ہے، اور ” نمبر ون ” کی سوچ کو دوسرے ممالک کی ترقی کے حقوق کو دبانے میں بدل دیتا ہے۔ انسانی تہذیب ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ جب موسمیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا سایہ دنیا پر منڈلا رہا ہے، اور مصنوعی ذہانت اخلاقی چیلنجز لے کر آ رہی ہے، تو کوئی بھی ملک تن تنہا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چینی تہذیب کا یہ حکیمانہ اصول کہ “پانی بغیر کسی مقابلے کے سب کو فائدہ پہنچاتا ہے” درحقیقت عالمی حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرتا ہے اور یہ سوچ رکھتا ہے کہ حقیقی طاقت دوسروں کو دبانے میں نہیں بلکہ انہیں مدد دینے میں ہے، حقیقی دولت وسائل پر قبضہ کرنے میں نہیں بلکہ خوشحالی کو بانٹنے میں ہے۔

جبکہ امریکہ کا ” نمبر ون “پر رہنے کا اضطراب نہ صرف خود اسے لامتناہی داخلی کشمکش میں مبتلا کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا کومقابلے کے گرداب میں دھکیل رہا ہے۔ انسانیت کا مستقبل آخرکار تعاون میں ہے نہ کہ مقابلے میں۔یہ مستقبل باہمی بقا میں ہے نہ کہ تنہا بالادستی میں۔ انسانی تہذیب کی ترقی کی طویل روداد میں، وہ سلطنتیں جو “مقابلے” کے ذریعے غلبہ حاصل کرنا چاہتی تھیں وقت کی لہروں میں بہہ گئیں، جبکہ پانی کی طرح جامع اور پرورش کرنے والی تہذیبیں ہی دیرپا ثابت ہوئی ہیں۔ چین کا عالمی نظریہ کسی کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا کو ایک نیا امکان فراہم کرنے کے لیے ہے ۔اس نظریے میں باہمی احترام میں مشترکہ ترقی اور تہذیبی مکالمے میں تنازعات کے بحران کو حل کر نے جیسی سوچ ہے ۔ایسے وقت میں جب امریکہ ” نمبر ون “پر رہنے کی فکر میں گھرا ہوا ہے، چین نے “خاموشی سے ہر شے کو سیراب کرنے ” کی حکمت عملی سے انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے راستے پر کثیر اتفاق رائے کو اکٹھا کر لیا ہے۔ ان دو عالمی نظریات کا مقابلہ درحقیقت تہذیبی فلسفہ کا انتخاب ہے: کیا ہم “طاقتور کا حق” کے پرانے دور میں واپس جائیں گے یا ” ہر تہذیب کا احترام ” کے نئے مستقبل کی طرف بڑھیں گے؟ جواب تاریخ کے دھارے میں بتدریج واضح ہوتا جا رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ  منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز  کی شمولیت پر  اہم ہدایات شی جن پھنگ کی جانب سے ” 15ویں پانچ سالہ  منصوبے ” کی تشکیل کے لئے عوامی تجاویز  کی شمولیت پر  اہم ہدایات ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے خوشخبری،فی یونٹ کتنے روپے کمی کا امکان ؟ چینی صدر کا اصلاحات و ترقی کو فروغ دینے کا مسلسل عزم “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کے تصور کی عالمی اہمیت پر خصوصی سمپوزیم کا انعقاد چین۔یورپ ریلوے سروس کے مرکزی کوریڈور سے روانہ ہونے والی مال بردار ٹرینوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ایف بی آر کا سیلز ٹیکس میں بے ضابطگیوں پر ایکشن، 11 ہزار سے زائد کمپنیوں کو نوٹسز جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • امریکہ، فوجی بیس میں مسلح شخص کی فائرنگ، متعدد ہلاکتوں کی اطلاع
  • پی ٹی آئی 5 اگست احتجاج: علی امین کے خلاف نعرے، کیا قیادت ورکرز کا اعتماد کھو رہی ہے؟
  • غزہ میں جنگی جرائم کا ملزم امریکہ کیجانب سے روس کیلئے ثالث مقرر
  • لائی چھنگ ڈے کی انتظامیہ پر عوامی اعتماد کی شرح میں شدید کمی ، تائیوان کے  تازہ ترین سروے  پر سی ایم جی کا تبصرہ
  • ایرانی صدر کا دورہ ثبوت ہے کہ پاکستان نے ایران، اسرائیل جنگ میں مثبت کردار ادا کیا، عرفان صدیقی
  • امریکہ ،بھارت تجارتی جنگ میں شدت، ٹرمپ کی مودی کو مزید ٹیرف لگانے کی دھمکی
  • چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل
  • امریکی منڈی میں پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد ٹیکس
  • برطانوی جریدے ’ دی اکانومسٹ ‘ کا فیلڈ مارشل کو خراج تحسین ، پاک امریکہ تعلقات کی کوششوں کو سراہا
  • بانی کا بیرون ملک جانے پر راضی والا شوشہ تحریک کو نقصان پہنچانے کیلئے ہے: گنڈا پور