ہم نہیں جانتے کہ ایران کیا جواب دے گا، امریکی انٹیلیجنس اہلکار
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ایران اس پر کیسے ردعمل ظاہر کرے گا، کیونکہ یہ ہماری جدید تاریخ میں کشیدگی اور تنازعہ کی سب سے اونچی سطح ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ایران کا ردعمل کیا ہو گا۔ دوسری جانب امریکی وزارت دفاع کے دو سینیئر حکام نے سی بی ایس نیوز کو بتایا ہے کہ اتوار کی صبح سویرے فوردو کے اڈے پر بمباری کے لیے تین امریکی B-2 بمبار استعمال کیے گئے۔ ان میں سے ہر بمبار دو "بنکر بسٹر" بموں سے لیس تھا۔ دونوں حکام نے سی بی ایس کو بتایا کہ نتانز اور اصفہان کی تنصیبات کو آبدوزوں سے فائر کیے گئے "ٹوماہاک" میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ سفارتی ذرائع نے بھی اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے خطے کے تمام اتحادیوں کو، جو امریکی افواج کی میزبانی کرتے ہیں، ایران پر حملے کے متوقع منصوبے سے پہلے سے آگاہ نہیں کیا تھا، بلکہ بعض اتحادیوں کو صرف طیاروں کی پرواز کے دوران اطلاع دی گئی۔ امریکی اڈوں پر ایرانی جوابی حملوں کے ممکنہ خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ایران اس پر کیسے ردعمل ظاہر کرے گا، کیونکہ یہ ہماری جدید تاریخ میں کشیدگی اور تنازعہ کی سب سے اونچی سطح ہے۔ دوسری جانب امریکی حملے کے جواب میں، ایران کے پاسداران انقلاب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کی پرامن جوہری صنعت کسی بھی حملے سے تباہ نہیں ہوگی، اور اس بات پر زور دیا کہ ایران، اپنے جائز حق دفاع کی بنا پر، ایسے آپشنز استعمال کرے گا جو حملہ آور کی سمجھ اور اندازوں سے بالاتر ہوں گے اور انہیں سخت ردعمل کی توقع کرنی چاہیے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے سی بی ایس کو بتایا کہ ایران
پڑھیں:
ایران امریکہ-پاکستان کی شراکت داری کے بارے میں کتنا فکرمند ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ہفتہ اور اتوار کے روز پاکستان کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماؤں نے تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے اور سکیورٹی تعلقات کو مضبوط بنانے کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
دونوں ممالک کو اپنی سرحد کے قریب شدت پسند گروپوں سے متعلق سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، جہاں ایران میں سرگرم جیش العدل اور پاکستان میں موجود بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروہوں نے کئی حملے کیے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی سینیئر فیلو فاطمہ امان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایران اب محاذ آرائی کے بجائے سکیورٹی سفارت کاری کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
(جاری ہے)
تہران اسلام آباد کے ساتھ انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ بارڈر پیٹرولنگ اور سکیورٹی تعاون کے دیگر اقدامات کے لیے سرگرم ہے۔‘‘پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو بلوچستان کے علاقے سے گزرتی ہے۔ اس خطے میں پاکستانی صوبہ بلوچستان، ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان اور افغانستان کے کچھ حصے شامل ہیں۔
یہ علاقہ کئی دہائیوں سے سرحد کے دونوں طرف علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان ان شدت پسند گروپوں کے خلاف ایک اسٹریٹیجک اتحاد ہے، لیکن سرحد پار دہشت گردی کی وجہ سے ان کے تعلقات بعض اوقات کشیدہ بھی رہے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال ہونے والے میزائل حملوں اور جھڑپوں میں دیکھا گیا۔ان مسائل کے باوجود، ایران اور پاکستان کے تعلقات مجموعی طور پر خوشگوار ہیں۔ حالیہ 12 روزہ اسرائیل-ایران کشیدگی کے دوران پاکستان نے ایران کا ساتھ دیا، ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، اور اسرائیل کو واضح طور پر جارح قرار دیا۔
لیکن اس حمایت کے باوجود، پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر ایسے وقت میں جب، بالخصوص ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر امریکہ اور ایران کے تعلقات کئی دہائیوں سے دشمنی اور کشیدگی سے بھرپور رہے ہیں، تہران کے لیے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔
فاطمہ امان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ قریبی تاریخی تعلقات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ایران کے حوالے سے کسی براہِ راست فوجی اتحاد سے گریز کیا ہے۔
ان کے مطابق، ’’ایران کی نظر میں پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جو اس کے خلاف کسی دشمنانہ فوجی کارروائی کے لیے پلیٹ فارم بنے۔‘‘
امریکہ-پاکستان شراکت داریامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اس جنوبی ایشیائی ملک کے تیل کے ذخائر کو ترقی دینے پر اتفاق کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مبینہ طور پر بلوچستان میں ہیں۔
جس کے نتیجے میں امریکہ کو ایران کی مشرقی سرحدوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔اپنی جغرافیائی حیثیت، قدرتی وسائل کی بہتات، اور ایران و افغانستان کے قرب و جوار کی وجہ سے یہ خطہ امریکہ کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر امریکی کمپنیاں بلوچستان میں تیل کے امکانات تلاش کرنے آتی ہیں تو ایران کو اپنی سرحد کے ساتھ امریکی موجودگی پر تشویش ہو سکتی ہے۔
لیکن پھر پاکستان کو بھی چابہار (ایرانی بندرگاہ جہاں بھارت سرمایہ کاری کر رہا ہے) میں بھارتی موجودگی پر تحفظات رہے ہیں، اس لیے یہ احساس دونوں طرف موجود ہے۔‘‘بین الاقوامی امور کے ماہر اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد شعیب نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اتحادی رہے ہیں، لیکن پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور شدت پسند گروہوں سے تعلقات پر کشیدگیاں بھی رہی ہیں۔
شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چونکہ ایران نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مختلف ادوار کے تعلقات دیکھے ہیں، لہٰذا اسے حالیہ قربت پر زیادہ تشویش نہیں ہے۔‘‘
اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں قربت آتی دکھائی دے رہی ہے، مگر یہ تعلقات اتنے سیدھے بھی نہیں ہیں۔
پاکستان نے حالیہ بھارت-پاکستان بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور اہم قیادت کو سراہتے ہوئے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا، لیکن اس کے محض چوبیس گھنٹے بعد اسلام آباد نے ایران کے ایٹمی تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کی مذمت کی۔
ایران کی پاکستان سے مدد کی خواہشمشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ کی فاطمہ امان نے کہا، ’’ایک ایسے وقت میں جب ایران پر اسرائیل یا امریکہ کی عسکری کارروائی کا خطرہ مزید حقیقت بنتا جا رہا ہے، تہران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
ان کا ماننا ہے کہ ایران توقع رکھتا ہے کہ پاکستان اس کے پرامن سول ایٹمی پروگرام کے حق میں اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
پاکستان سیاسی طور پر ایک حساس اور سفارتی طور پر نازک صورت حال سے دوچار ہے، جہاں اسے ایک طرف امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کرنا ہے اور دوسری طرف اپنے مسلم ہمسایہ ملک کی حمایت بھی برقرار رکھنی ہے۔
شعیب کے خیال میں ’’ایران کو واشنگٹن تک پہنچنے کے لیے ایک معتبر ذریعہ درکار ہے، اور پاکستان اس میں ثابت شدہ کردار ادا کر چکا ہے۔
پاکستان نے ماضی میں بھی ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایران کے پرامن سول ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتا ہے، مگر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتا۔‘‘گزشتہ ماہ واشنگٹن میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور علاقائی استحکام برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''اسلام آباد ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی لانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک کا ماننا ہے کہ ’’ایران چاہے گا کہ پاکستان ٹرمپ سے اپنی نئی قربت کو استعمال کرتے ہوئے اسے ایک سول نیوکلیئر ڈیل حاصل کرنے میں مدد دے۔
‘‘ امریکی پابندیاں دوطرفہ تجارت میں رکاوٹتہران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں پاکستان اور ایران کے درمیان مکمل پیمانے پر دوطرفہ تجارت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر شعیب نے کہا کہ اسلام آباد نے ایران کے ساتھ رسمی تجارت سے گریز کیا ہے۔ جس میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی شامل ہے، کیونکہ یہ پابندیاں آڑے آتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اگر پاکستان کو ایران کے ساتھ زیادہ جامع تجارتی تعلقات قائم کرنے ہیں تو وہ ’’ایران پر امریکی پابندیوں میں کسی حد تک نرمی‘‘ چاہے گا۔تجارتی قانون کے ماہر ملک نے کہا، ’’پاکستان پہلے ہی ایران کے ساتھ غیر رسمی تجارت کر رہا ہے، اور بعض اندازوں کے مطابق پاکستان کی 30 فیصد ایندھن کی ضروریات ایرانی اسمگل شدہ تیل سے پوری کی جاتی ہیں۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں کمی، پاکستان کے ذریعے، امریکی پابندیوں میں نرمی لا سکتی ہے۔‘‘تاہم، تجزیہ کار امان کے مطابق، جب تک پابندیاں نرم نہیں ہوتیں، بڑے منصوبے جیسے کہ گیس پائپ لائن مؤثر طور پر معطل رہیں گے۔
انہوں نے کہا، ’’موجودہ حالات میں پائپ لائن کا دوبارہ آغاز ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ اسلام آباد ثانوی پابندیوں یا واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی مول نہیں لے سکتا۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز