اسرائیل کیساتھ کھڑے ہونے والے ٹرمپ بھارت کیساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوئے، سنجے راؤت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
شیو سینا کے لیڈر نے کہا کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی تھی تو ٹرمپ نے جنگ بندی کا پورا کریڈٹ خود لے لیا، لیکن اب وہ اسرائیل کی حمایت میں انکے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں اب امریکہ بھی براہ راست شامل ہوگیا ہے۔ امریکہ نے ہفتہ کی رات ایران کے 3 ایٹمی مقامات پر زبردست بمباری کی۔ اسرائیل کی حمایت میں ایران کے خلاف اٹھائے گئے امریکہ کے اس اقدام پر شیو سینا (یو بی ٹی) کے لیڈر سنجے راؤت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کئی تلخ سوال بھی پوچھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب "اسرائیل ایران کے درمیان جنگ" ہو رہی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو اس میں کودنے کی کیا ضرورت تھی۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے سنجے راؤت نے کہا کہ اگر ایران اسرائیل کے درمیان جنگ جاری تھی تو امریکی صدر ٹرمپ کو مداخلت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ سنجے راؤت نے کہا کہ ٹرمپ خود اس میں شامل ہوگئے اور ایران پر حملے کا حکم بھی دے دیا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی تھی تو ٹرمپ نے جنگ بندی کا پورا کریڈٹ خود لے لیا، لیکن اب وہ اسرائیل کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تب ٹرمپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھڑے ہوئے۔ سنجے راؤت نے مزید کہا کہ نوبل انعام پانے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کو اپنے وہائٹ ہاؤس میں ظہرانہ پر بلایا۔ انہوں نے کہا "ہماری جنگ تو آپ نے رکوا دی، لیکن ایران کے پاس ایٹمی بم ہے یہ بول کر آپ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ایران پر بمباری کرنے لگے، مسٹر ٹرمپ آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھڑے ہوئے"۔ انہوں نے کہا "یہ نریندر مودی اور ان کی حکومت کو سوچنا چاہیئے، ٹرمپ آپ کو الو بنا رہے ہیں اور آپ بن رہے ہیں"۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا اسرائیل کی کے درمیان ساتھ کھڑے نے کہا کہ ایران کے رہے ہیں
پڑھیں:
”امریکہ خود روس سے خریداری کرتا ہے، ہمیں طعنے کیوں؟“ ٹرمپ کی دھمکی پر بھارت کا رد عمل
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس سے تیل خریدنے پر بھارت کو اضافی تجارتی ٹیرف کی دھمکی کے بعد بھارت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ امریکہ خود بھی روس سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے، اس لیے بھارت پر تنقید غیر منصفانہ ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں کہا ”امریکہ اپنی نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے روس سے یورینیم کمپاؤنڈ خریدتا ہے، اسے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر بھارت روس سے رعایتی تیل لے تو اعتراض شروع ہو جاتا ہے؟“
بھارتی حکام کے مطابق ہماری توانائی کی ضروریات، معیشت اور صارفین کے مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ بھارت نے یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس سے تیل درآمد کرنا اس وقت شروع کیا جب روایتی سپلائیز یورپ کی طرف منتقل کر دی گئی تھیں۔ امریکہ نے اس وقت خود بھارت کو روسی درآمدات کی ترغیب دی تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔
Statement by Official Spokesperson⬇️
???? https://t.co/O2hJTOZBby pic.twitter.com/RTQ2beJC0W
— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) August 4, 2025
بھارت کی جانب سے بیان بھی جاری کیا گیا جس مں کہا گیا کہ 2024 میں یورپی یونین نے روس کے ساتھ 67.5 ارب یورو کی اشیا کی دو طرفہ تجارت کی، جب کہ خدمات کی مد میں 17.2 ارب یورو کی تجارت ہوئی۔ اس کے برعکس بھارت کی روس کے ساتھ تجارت یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
بھارت نے بیان میں مزید کہا کہ 2024 میں یورپی ممالک نے روس سے 1 کروڑ 65 لاکھ ٹن قدرتی گیس درآمد کی، جو 2022 کے ریکارڈ 1 کروڑ 52 لاکھ ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یورپ اور روس کی باہمی تجارت صرف توانائی تک محدود نہیں بلکہ کھاد، معدنیات، کیمیکل، فولاد، مشینری اور ٹرانسپورٹ آلات پر بھی مشتمل ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق امریکہ آج بھی روس سے جوہری صنعت کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلڈیم، کھاد اور دیگر کیمیکل درآمد کر رہا ہے۔
قبل ازیں، حالیہ بیان میں روس سے تیل خریدنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر عائد ٹیرف مزید بڑھانے کا اعلان کردیا۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے فروخت کرکے منافع بھی کما رہا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی فوج کے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب بھارت پر ٹیرف میں اور بھی اضافہ کرنے جا رہا ہوں۔
واضح رہے کہ بھارت روزانہ تقریباً 20 لاکھ بیرل روسی تیل درآمد کرتا ہے اور یہ اس کی کل تیل درآمدات کا بڑا حصہ بن چکا ہے، جس سے بھارت کو مالی طور پر بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔
اضافی تجارتی ٹیرف بعد بھارتی صحافیوں کا رد عمل
ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر مزید اضافی ٹیرف لگائے جانے پر بھارتی صحافیوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
بھارتی صحافی راہول شوشنکر نے ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ نے بھارت کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیرف میں ”کافی حد تک اضافہ“ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے سامنے ’’مودی کے ہتھیار ڈالنے‘‘ کی بات سراسر غلط ہے۔
TOTALLY LOST IT!
Trump threatens to "substantially raise" tariffs paid by India.
What this proves is that the talk of "Modi surrendering" to U.S.A led by Trump is totally misconceived. pic.twitter.com/li8Bp74zWs
— Rahul Shivshankar (@RShivshankar) August 4, 2025
سونم ماہاجن نامی خاتون صحافی نے لکھا کہ اسٹریٹجک لحاظ سے واشنگٹن ایشیا میں اپنے سب سے اہم شراکت داری کو تیزی کے ساتھ ضائع کر رہا ہے۔ نیو دہلی کو اب علاقے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
In strategic terms, Washington is fast squandering its most consequential partnership in Asia. New Delhi must now prepare for heightened regional volatility.
— Sonam Mahajan (@AsYouNotWish) August 4, 2025
ایک اور بھارت کے صحافی شیکھر گپتا نے ایکس پر اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ ٹرمپ کا غصہ کسی اصول یا پالیسی پر نہیں ہے۔ یہ ایک خود پسند شخص کا غصہ ہے جو جنگ بندی کے لیے تعریفی سراہنا نہ ملنے پر دونوں ممالک (بھارت-امریکہ) کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے جو تین دہائیوں میں تعمیر ہوئے تھے۔
متھو کرشنن نامی صحافی نے بھارت پر ٹرمپ کے عائد کردہ اضافی ٹیرف کے خلاف ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ روسی تیل خریدنا ہماری مرضی ہے، حالانکہ یہ اب بھارت اور امریکہ کے درمیان تنازعہ کا سبب بن چکا ہے۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی عوام کو روس سے سستا تیل درآمد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم ابھی بھی ایندھن کی قیمتیں بہت زیادہ ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ نہیں جانتا کہ روسی تیل سے کس کو فائدہ ہوا۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے بلند ٹیرف سے کئی شہری متاثر ہوں گے۔
کسی کو فائدہ نہیں، بس عام آدمی کے لیے درد ہی درد۔
برطانوی سیاستدان ربیکا اسمتھ نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ میں لکھا کہ ٹرمپ جانتا ہے کہ بھارت صرف دباؤ کے سامنے ردعمل دیتا ہے، انہوں نے پہلے بھی یہ کیا تھا، اور اب دوبارہ کر رہے ہیں۔
ربیکا اسمتھ کا کہنا تھا کہ ٹیرف لگانے سے لے کر بھارت کے روسی تیل کو دوبارہ فروخت کے کھیل کو بے نقاب کرنے تک، وہ مودی کے ”شراکت دار“ کے کردار کو نہیں خرید رہا۔ کیونکہ جب دباؤ ڈالا جاتا ہے تو بھارت ہر بار ہار مان لیتا ہے۔
علاوہ ازیں جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر سیکیورٹی اور ڈیٹرنس جیسے موضوعات کی خاص مہارت رکھنے والی ڈاکٹر رابعہ اختر نے بھارت کے خلاف ٹوئٹ میں لکھا کہ بھارت تم نے روسی تیل چھوڑا پھر اسے یورپ کی جانب بھیجا اور اب ہمیں الزام دیتے ہو کہ ہم وہی خرید رہے ہیں جو تم نے چھوڑا۔
انہوں نے لکھا کہ دہائیوں سے پاکستان کو ہر اقدام، ہر شراکت داری، اپنے دفاعی موقف، اور توانائی کے تنوع کی وضاحت دینا پڑی۔ چاہے ایران سے تعلقات بڑھانا ہو، چین کے ساتھ اسٹریٹجک ہم آہنگی برقرار رکھنی ہو، یا خود انحصاری کے لیے دوہری استعمال والی ٹیکنالوجیز کی تلاش ہو، مغرب سے جواب ہمیشہ ایک ہی رہا: غیر ذمہ دارانہ، عدم استحکام پیدا کرنے والا۔
ڈاکٹر رابعہ اختر نے مزید لکھا کہ اب بھارت روسی تیل کی درآمدات کا دفاع کرنے کے لیے ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کا حوالہ دیتا ہے، مگر سوال کیے جانے پر چڑھ جاتا ہے۔ اچانک قومی مفاد مقدس ہو گیا، اور خود مختاری غیر مذاکرہ شدہ ہوگئی۔ آخرکار بھارت کو وہ تجربہ ہو رہا ہے جو کبھی اس نے خود ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔
Post Views: 4