رافیل بمقابلہ جے 10 سی عالمی دفاعی صنعت میں تبدیلی کا اشارہ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 23 June, 2025 سب نیوز

چینی دفاعی صنعت نے پاکستان جیسے ممالک کے لیے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے، رپورٹ
پیرس :اس سال کا پیرس ایئر شو دھوم مچا رہا ہے، شو میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز وہ منظر ہے جہاں میزبان ملک فرانس کے “رافیل” لڑاکا طیارے کے اسٹال کے بالکل سامنے چین کے J-10C طیارے کی نمائش ہو رہی ہے۔ چین، پاکستان اور بھارت کے ناظرین اس منظر کی رمزیت فوراً سمجھ جائیں گے۔ واضح الفاظ میں کہوں تو بات یہ ہے کہ پاک فضائیہ کے مطابق ،حالیہ پاک-بھارت فضائی جنگ میں انہوں نے بھارتی فضائیہ کو 0-6 سے شکست دی تھی، اور “رافیل” کو مار گرانے والا پاک فضائیہ کا J-10C طیارہ ہی تھا۔

اب پیرس ایئر شو میں “رافیل” اور J-10C کا آمنے سامنے نمائش کرنا، اگر کوئی کہے کہ اس ترتیب میں کوئی خاص پیغام نہیں، تو کون یقین کرے گا؟ شاید واقعی کوئی خاص بات نہ ہو، لیکن یہ منظر انتہائی دلچسپ ضرور ہے۔پیر کے روز ایک میڈ یا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دراصل پاک-بھارت فضائی جنگ میں J-10C اور “رافیل” کا یہ مقابلہ محض ہتھیاروں کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں رہا۔ اس جھڑپ کے پس منظر میں چینی دفاعی صنعت کا عروج نہ صرف خطے کے فوجی توازن کو گہرے طور پر متاثر کر رہا ہے، بلکہ پاکستان جیسے ممالک کو نئے مواقع اور ترقی کی راہیں بھی دکھا رہا ہے۔طویل عرصے سے عالمی فوجی سازوسامان کا بازار مغربی طاقتوں کے قبضے میں رہا ہے۔ فرانس کا “رافیل” طیارہ جدید ٹیکنالوجی اور شاندار کارکردگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ چینی دفاعی صنعت کی ترقی نے اس اجارہ داری کو توڑ دیا ہے۔ J-10C کی “رافیل” کے خلاف حقیقی جنگ میں فتح یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب عالمی فوجی سازوسامان کے میدان میں ایک نیا طاقتور حریف موجود ہے۔

پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ تبدیلی انتہائی اہم ہے۔ ماضی میں پاکستان کے پاس فوجی سازوسامان خریدنے کی محدود آپشنز تھیں۔ انہیں نہ صرف مغربی مصنوعات کی بلند قیمتوں کا سامنا تھا، بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی پر پابندیاں اور سیاسی شرائط بھی قبول کرنی پڑتی تھیں۔ اب چینی دفاعی صنعت نے پاکستان کو زیادہ قابل اعتماد اور خودمختار فوجی سازوسامان حاصل کرنے کا ذریعہ فراہم کیا ہے، جس سے وہ مغربی ممالک پر انحصار کم کرتے ہوئے اپنی دفاعی پالیسیوں میں زیادہ آزادی حاصل کر سکتا ہے۔چینی دفاعی صنعت کے عروج کا پاکستان کے لیے سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس کی سلامتی کو مضبوط بنیادیں مل گئی ہیں۔ J-10C طیاروں کی بدولت پاک فضائیہ خطے میں کسی بھی فوجی خطرے کا بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔ یہ اعتماد نہ صرف طیاروں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ہے، بلکہ چینی دفاعی صنعت کی مضبوط تکنیکی مدد کی وجہ سے بھی ہے۔اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی شعبے میں گہرے تعاون نے پاکستانی دفاعی صنعت کو فروغ دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ پروڈکشن کے ذریعے پاکستان دفاعی مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے،

جو اس کی طویل مدتی سلامتی کے لیے اہم ہے۔وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو چینی دفاعی صنعت نے پاکستان جیسے ممالک کے لیے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ چین فوجی سازوسامان کی برآمدات میں مساویانہ مفادات اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے اصولوں پر کاربند ہے۔ اس تعاون سے پاکستان جیسے ممالک اپنی خودمختاری قائم رکھتے ہوئے دفاعی صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔مزید برآں، چینی دفاعی صنعت کی ترقی نے پاکستان جیسے ممالک کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ فوجی ساز و سامان کی تجارت کے ساتھ وابستہ صنعتیں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرتی ہیں اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کو فروغ دیتی ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے چینی دفاعی صنعت کے عروج سے کئی سبق ملتے ہیں۔ ایک طرف تو ترقی پذیر ممالک کو مغرب پر انحصار کم کرتے ہوئے قابل اعتماد بین الاقوامی شراکت دار تلاش کرنے چاہئیں۔

دوسری طرف انہیں اپنی دفاعی صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی دفاعی ضروریات خود پوری کر سکیں۔پیرس ایئر شو میں J-10C اور “رافیل” کا رو برو ہونے کا منظر چینی دفاعی صنعت کے عروج کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس نے پاکستان جیسے ممالک کو بہتر دفاعی اختیارات دیئے ہیں، نئے مواقع فراہم کیے ہیں، اور بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا نمونہ پیش کیا ہے۔ عالمی دفاعی صنعت کے توازن کی تبدیلی کے اس دور میں یہ تعاون مشترکہ کامیابیوں کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب کی ایران پر امریکی حملے کی مذمت شنگھائی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی مناسبت سے ثقافتی مصنوعات کی مقبولیت میں زبردست اضافہ سمر ڈیووس فورم 2025 تھیان جن میں منعقد ہوگا سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم کے دوران چائنا میڈیا گروپ کی شاندار نمائش مستقبل چین میں ہے” غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اتفاق رائے بن گیا ، چینی میڈیا تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس سلیب اور نان فائلر کے کیش نکلوانے کی حد میں تبدیلی منظور سنگاپورچین کے ساتھ مزید تعاون کا خواہاں ہے، وزیر اعظم سنگاپور TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: دفاعی صنعت

پڑھیں:

پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ

حمیداللہ بھٹی

پاکستان اور سعودی عرب میں مشترکہ دفاع کا معاہدہ غیر متوقع پیش رفت نہیں کیونکہ ایسا کچھ ہونے کا امکان تھا ۔البتہ معاہدہ اتنی خاموشی سے طے پاجائے گا یہ غیر متوقع ضرورہے ۔شایداِس کی وجہ یہ ہوکہ دونوں کودبائو کاخدشہ تھا۔ اسی لیے کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی ۔سترہ ستمبر کو طے پانے والے معاہدے نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور امریکہ کی خاموشی نے عربوں کواُس نہج پرپہنچا دیا کہ وہ امریکہ پر دفاعی انحصار کرنے کے علاوہ بھی سوچنے لگے ہیں بلکہ ایسا امکان موجود ہے کہ دیگر ممالک بھی اسی قسم کے معاہدوں کی طرف جا سکتے ہیں ۔
تھوڑے عرصے کے لیے عرب ممالک بدظن رہے ۔مایوسی کی وجہ پاکستان کی کمزور معیشت بنی مگر رواں برس چھ سے دس مئی تک کے پاک بھارت واقعات نے دنیا کی سوچ تبدیل کردی اورعربوں کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ پاکستان کے سواکوئی اور ملک اُنھیں دفاع میں مددنہیں دے سکتا۔یہ ہے بھی توانہونی بات کہ آٹھ گُنا بڑا ملک سینکڑوں طیاروں سے حملہ آور ہوتا ہے اور اربوں مالیت کے سات جدید ترین لڑاکا طیارے تباہ کرانے کے بعد پسپائی اختیارکرلیتا ہے ۔دس مئی کو نمازِ فجر کے بعد جوابی حملہ شروع ہوتا ہے اور نمازِ عصر کے وقت بے مثال کامیابی پرشکرانے کے نوافل بھی ادا کرلیے جاتے ہیں۔بے مثال جنگی مہارت اور صلاحیتوں سے پاک فوج نے باورکرادیاکہ وہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی اور موثر فوج ہے ۔مئی واقعات نے عدمِ تحفظ کا شکارعربوں کے دل جیت لیے اور وہ دوبارہ پاکستان کے قریب آئے۔ رواں ماہ 9ستمبر کو قطر پر اسرائیلی حملے نے مزیدجھنجوڑاجس کی وجہ سے ایسی نئی دفاعی حکمت ِعملی پر غور کرنے لگے جو اسرائیلی جارحیت کا توڑ کرسکے ظاہر ہے پاکستان دنیا کا واحد جوہری ملک ہے جس کے پاس تمام اسلامی ممالک سے بڑی فوج ہے جوکسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کُن نتائج دے سکتی ہے، اسی بناپر سب کی نظریں اب پاکستان پر ہیں۔
قطر کی طرف سے طلب کی گئی ہنگامی عر ب و اسلامی سربراہی کانفرنس میں اسلامی قیادت کوملنے اور تبادلہ خیال کااچھا موقع ملا۔ اِس ہنگامی سربراہی کانفرنس میں جہاں میزبان قطر سمیت اسرائیلی خطرے سے دوچاردیگر عرب ممالک تک اظہارِ خیال میں محتاط رہے۔ وہاں پاکستان نے واشگاف الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے غاصب ملک قرار دیا اور قطری قیادت کو یقین دلایا کہ جوابی کارروائی کا آپ جو بھی فیصلہ کریں پاکستان ہر طرح کاساتھ دینے کو تیار ہیں۔ مشترکہ فورس کی تجویز تک پیش کی قیافہ ہے کہ اسی دوران پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک سنوارلی گئی۔ قبل ازیں ایران پر اسرائیلی حملے کی بھی پاکستان نے سخت مذمت کی اور ایران کی ہرممکن سفارتی و سیاسی مدد کی جس پر ایرانی قیاد ت نے نہ صرف پارلیمنٹ میں پاکستان کا نام لیکر تشکر تشکر کے نعرے لگائے بلکہ ایرانی صدر،سعود پزشکیان خاص طورپر شکریہ ادا کرنے پاکستان آئے۔ آج ایران اور اُس کے حامی بلکہ سعودی عرب اور اُس کے حامی دونوں ہی پاکستان کے ممنون ہیںمگروہ عالمی طاقتیں جن کامفادخطے کے عدمِ استحکام میں ہے۔ وہ پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کے معاہدے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتیں ۔جب ٹی ٹی پی جیسے شدت پسنداور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے قوم پرست گروہ پہلے ہی اُن کے رابطے میں ہیں۔ پاکستان کو بظاہراب بیرونی جارحیت کا خطرہ نہیں مگر احتیاط کا تقاضا ہے کہ دفاعی معاہدے کے ردِ عمل پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ امریکہ سے چاہے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہیں مگر اُس کی اولیں ترجیح ہمیشہ سے اسرائیل ہے ۔ممکن ہے بھارت اور اسرائیل دونوں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے دہشت گردوں کواستعمال کرتے ہوئے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات خراب کرنے کی کوشش کریں۔ اربابِ اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہن میں رکھیں کہ جتنا بڑا مقصد حاصل ہوتا ہے، ویساہی ردِ عمل بھی آ سکتاہے بڑے مقاصد کے لیے اندرونی کمزوریاں دورکرنادانشمندی ہے۔
مکہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات کی سرزمین ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان سعودی عرب سے خاص لگائو رکھتے اورمقدس مقامات کادفاع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے دفاعی معاہدے پر ہر پاکستانی خوش ہے۔ سعودی بادشاہوں سے شریف خاندان کا ذاتی تعلق ہے۔ 2015 میںجب یمن عدمِ استحکام سے دوچار ہواتو بھی سعودی عرب اور عرب امارات نے پاکستان سے فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تھامگر پارلیمنٹ نے جب توثیق نہ کی تو سعودیہ اور امارات نے ناراض ہوگئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کو ولی عہد محمد بن سلیمان نے ذاتی طیارہ دیکر راستے سے واپس منگوالیا جوتلخی بڑھانے کاباعث بنا۔اسی دوران سی پیک کے حوالے سے چین کی طرف سے ناخوشی کے اِشارے بھی آئے جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ مگر مئی کی جنگ نے صورتحال یکسر بدل کر پاکستان کو اہم ترین بنادیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے جس آرمی چیف کو ناشتے پر مدعو کیا ہے وہ جنرل عاصم منیر ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صدر ٹرمپ نے سب سے کم ٹیرف پاکستان پر لگایا۔ اِس وقت تمام مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ امریکہ ، روس،چین،برطانیہ سے تعلقات بھی ہموار ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کارپاکستان کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ یہ کامیاب سفارت کاری مئی کی جنگ کاصلہ ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر آئے تو رائل ائیر فورس کے طیاروں کا سکارٹ کرنابھی تاریخی واقعہ ہے۔ ماضی میں ایسا صرف امریکی صدور کی آمد پر ہی ہوتارہا۔ اگر ارباب وبست وکشاد نے کوئی حماقت نہ کی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام کا شکارنہ ہونے دیاتو دفاعی قوت بننے کے ساتھ پاکستان کا معاشی قوت بننے کا بھی قومی امکان ہے ۔کیونکہ عربوں کو لڑاکا فوج اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے تو ہماری معیشت کو اربوں کی۔ذرا سی بے احتیاطی منزل دو ر کرسکتی ہے ۔ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ بھارت کو زمین اور فضامیں شکست دے چکے لیکن سندھ طاس معاہدہ اورمسئلہ کشمیر سمیت کئی ایسے پیچیدہ مسائل حل ہونا ہیں۔ بھارت نے فوجی شکست کا بدلہ آبی جارحیت سے لے لیا۔ مزید مکاریوں اور سازشوں کی بھی توقع ہے۔ افغان طالبان سے تعلقات ہموارنہیں اسرائیل وغیرہ جیسا ناہنجار کوئی شرارت کرے تو عبرت کا نشان ضرور بنائیں مگر یمنی حوثیوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں ،جب سعودیہ ،قطر اور عرب امارات تین ہزار ارب ڈالر دے بھی دھوکاکھاتے ہیں۔ ہم نے تولڑناہے لہٰذا 1980 کے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک ازرسرِ نو سنوارنابہتر ہوگا روس اور اسرائیل کے پیداکردہ حالات سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر محسوس ہوتے ہیں ۔اِس لیے دفاعی معاہدے پر شادیانے بجانے کے ساتھ ہر پہلو کو ذہن میں رکھاجائے۔
٭٭٭

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سعودی عرب دفاعی اشتراک بھارت اسرائیل میں بے چینی
  • پاکستان زیرِ التواء مقدمات کے بوجھ جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے: جسٹس میاں گل حسن
  • برسوں بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کے وفد کا چین کا اہم دورہ
  • سعودی عرب نے فوجی یونیفارم فیکٹری کی نجکاری کا عمل شروع کردیا
  • پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ
  • پاک سعودیہ دفاعی اتحاد کے بعد بھارت کیلئے پاکستان پر فوجی مہم جوئی کرنا انتہائی دشوار ہو گیا، مسعود خان
  • پاکستان،سعودی دفاعی معاہدہ: ایک تاریخی سنگ ِ میل
  • سعودی عرب سے معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں، پاکستان
  • عالمی سیاست کی نئی جہت
  • اسلام آباد میں چین-پاکستان گدھا صنعت فورم کا آغاز