ایران کے خلیجی ریاستوں میں واقع امریکا کے فوجی اڈّوں پر میزئل حملوں کے بعد حفاظتی تدابیر کے تحت متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اپنی فضائی حدود عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ اطلاع عالمی پروازوں کی نگرانی کرنے والے پلیٹ فارم فلائٹ ریڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر دی۔

اس پوسٹ میں فلائٹ پیٹرنز اور ایئر ٹریفک کنٹرول آڈیو کی بنیاد پر فضائی بندش کی تصدیق کی گئی ہے۔

یہ اقدام قطر کی جانب سے فضائی حدود بند کیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد سامنے آیا، جب قطر نے خطے میں جاری کشیدگی کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے ایئر اسپیس کو بند کیا تھا۔

Lots of aircraft are forced to turned around because of the closure of UAE airspace.

pic.twitter.com/I2zMYPOvse

— Flightradar24 (@flightradar24) June 23, 2025

امریکی نیوز ویب سائٹ Axios نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر چھ میزائل داغے ہیں جس کے بعد خلیجی ممالک میں سیکیورٹی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

ابوظہبی اور دبئی کے ایئرپورٹس پر فلائٹس کی آمد و رفت معطل ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں جبکہ مسافروں کو سفری منصوبوں میں تبدیلی کے لیے ہدایت دی جا رہی ہے۔

تاحال متحدہ عرب امارات کی جانب سے سرکاری سطح پر اس خبر کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔

 

 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیل کے بعد امریکا کے ایران پر حملے سے مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، گزشتہ روز امریکا نے ایران کے تین اہم جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر فضائی اور میزائل حملے کیے، جس نے عالمی سطح پر ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق، بی-2 بمبار طیاروں نے فردو نیوکلیئر سائٹ پر حملہ کرتے ہوئے 30 ٹن بارود گرایا، جس سے تنصیب کو شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے کو ’’مڈ نائٹ ہیمر‘‘ کا نام دیا گیا، جسے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا بمباری مشن قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی دوران، امریکی آبدوزوں سے داغے گئے ٹام ہاک میزائلوں نے نطنز اور اصفہان میں موجود جوہری اہداف کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کارروائی کو ’’انتہائی کامیاب‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو اب امن کی راہ اپنانی ہوگی، ورنہ مزید حملے اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں گے۔ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’اب یا تو امن ہوگا، یا ایران کو ایسی تباہی کا سامنا کرنا ہوگا جیسی اس نے کبھی نہ دیکھی ہو‘‘۔ اس حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع اور فضائیہ کے سربراہ نے میڈیا کو بتایا کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے ایران کو بات چیت کے لیے 60 دن دیے مگر کوئی سنجیدہ جواب نہ ملا، جس کے بعد یہ کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی۔ امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ حملے میں صرف تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور عام شہریوں یا فوجیوں کو نقصان نہیں پہنچا۔ اس دوران، ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل حملے کیے۔ ایرانی حکام کے مطابق ان حملوں میں اسرائیلی فوج کی 14 حساس تنصیبات، کمانڈ سینٹرز، اور ریسرچ لیبارٹریز کو نشانہ بنایا گیا۔ تہران کے مطابق یہ صرف ایک ابتدائی ردعمل ہے اور مزید سخت کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور پاسداران انقلاب نے اس حملے کو امریکا اور اسرائیل کی کھلی جارحیت قرار دیا اور کہا کہ ایران اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ قم میں کرائسز مینجمنٹ کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ فردو کے گرد و نواح میں تابکاری کے اثرات موجود نہیں اور شہری محفوظ ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے شہر یزد میں فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی بھی اطلاعات ہیں، جن میں 9 اہلکار شہید ہوئے۔ دوسری طرف ایران کی جانب سے جاری ویڈیوز میں اسرائیلی شہروں میں میزائل حملوں کی جھلکیاں دکھائی گئیں، جن میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس شامل ہیں۔ داخلی طور پر بھی اسرائیلی شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے، جہاں بم شیلٹرز بھر چکے ہیں اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ایک وائرل ویڈیو میں تل ابیب کے زیر زمین پناہ گاہ میں مرچوں کے اسپرے کے باعث افراتفری کا منظر دیکھا گیا، جس میں بزرگ شہری شدید تکلیف میں دکھائی دیے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے تصدیق کی ہے کہ فی الحال تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے اور ایران سے باہر کسی قسم کے اخراج کی اطلاع نہیں ملی۔ امریکی کارروائی کے خلاف ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایران اس جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔ مجموعی طور پر، اس پیش رفت نے عالمی برادری کو ایک نئے اور خطرناک بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ جہاں سفارتی دروازے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، وہیں ایک بھرپور جنگ کے بادل مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکا کے اس حملے پر بین الاقوامی ردعمل بھی تیزی سے سامنے آیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کشیدگی عالمی امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور چین نے سفارتی حل پر زور دیا جبکہ کیوبا، چلی اور وینزویلا سمیت لاطینی امریکا کے کئی ممالک نے امریکی اقدام کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ روس، چین اور پاکستان نے اقوام متحدہ میں ایک مشترکہ قرارداد پیش کی ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ایران کے صدر مسعود پزشکیان کو ٹیلی فون کرکے امریکا کی جانب سے ایران پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ امریکی حملے آئی اے ای اے کے قانون اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں، انہوں نے برادر ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ دوسری جانب امریکی حملے پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی منظوری دی ہے، جس سے عالمی توانائی کی ترسیل پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ آبنائے ہرمز نہایت اہم بحری گزرگاہ ہے جو خلیج فارس کو خلیج عمان سے جوڑتی ہے، اور صرف 33 کلومیٹر چوڑی ہونے کے باوجود یہ دنیا بھر کے لیے توانائی کی فراہمی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس راستے سے دنیا کو تیل کی تقریباً 20 فی صد، اور ایل این جی کی 5 فی صد ترسیل کی جاتی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران اپنا بیش تر تیل اسی راستے سے عالمی منڈیوں تک پہنچاتے ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق، روزانہ تقریباً 20 ملین بیرل تیل اور ہر ماہ 3 ہزار سے زائد بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں۔ اس اہم آبی گزرگاہ کی بندش سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں 13 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ دفاعی اور معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ آبنائے ہرمز صرف ایک گزرگاہ نہیں بلکہ دنیا کی توانائی کے لیے ’’رگِ جاں‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی بندش عالمی معیشت کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔ اس صورتحال پر امریکی وزیر خارجہ نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنے کے لیے ایران پر دباؤ ڈالے، انہوں یہ بھی کہا کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنا ایران کے لیے معاشی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ایک آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ کسی بھی طور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے اور امن کا نوبل انعام پانے کی خواہش رکھنے کے باجود امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ کو عملاً جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، امریکا اور عالمی برادری کو یہ بات رکھنی چاہیے کہ ایران پر اس حملے کے ممکنہ مضمرات نہایت وسیع، پیچیدہ اور خطرناک ہو سکتے ہیں، جو صرف دو ممالک کے درمیان جھڑپ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس سے علاقائی اور عالمی بحرا ن پیدا ہو سکتا ہے۔ اس حملے سے مشرق وسطیٰ جو پہلے ہی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے، یہ آگ مزید پھیل سکتی ہے، اس جنگ میں چین اور روس کی شمولیت کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس جنگ کے نتیجے میں اگر ایران معاشی بحران کا شکار ہوا تو عالمی معیشت میں بھی عدم استحکام کا شکار ہوگی۔ بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کی دھجیاں اگر اسی طرح اُڑائی جاتی رہیں تو خطے میں بھڑکنے والی آگ، آگ لگانے والوں کے آشیانوں کو بھی جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر
  • ایران کے امریکی فوجی اڈّوں پر حملے؛ بحرین، عمان اور کویت نے فضائی حدود بند کر دیں
  • متحدہ عرب امارات کی ایران کے قطر پر حملے کی شدید مذمت
  • مشرق وسطیٰ کشیدگی: پی آئی اے نے قطر، بحرین، کویت اور دبئی کے لیے فضائی آپریشن معطل کردیا
  • متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود بند کر دی
  • ایران کا امریکی فوجی اڈّے پر ممکنہ حملہ ؟ قطر کا فضائی حدود بند کرنے کا اعلان
  • ’’امریکانے ایران پرحملے کیلیے بھارتی فضائی حدوداستعمال کی‘‘
  • امریکی بمبار طیاروں کا بھارتی فضائی حدود کے استعمال کا انکشاف
  • امریکی بی-ٹو بمبار طیاروں نے ایران پر حملے کے لیے بھارتی فضائی حدود استعمال کیں