ایران اور اسرائیل مکمل جنگ بندی کے لیے تیار، صدر ٹرمپ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک مکمل اور حتمی جنگ بندی طے پا گئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ اعلان سوشل میڈیا پر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی آئندہ چھ گھنٹوں کے اندر نافذ العمل ہو جائے گی۔
صدر ٹرمپ کے مطابق، دونوں ممالک اپنی فوجی کارروائیاں اگلے 6 گھنوں میں مرحلہ وار ختم کر رہے ہیں، جس کے بعد چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر جنگ مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پہلے ایران سیز فائر کرے گا، جبکہ 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی سیز فائر کر دے گا، ایران اور اسرائیل نے حوصلہ، ہمت اور دانشمندی دکھائی۔
ٹرمپ کے اس بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ فریقین کی جانب سے جارحانہ کارروائیوں میں بتدریج کمی آئے گی، اور 12 دن کی جنگ کے بعد بالآخر مکمل امن قائم ہو جائے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران اب ایٹم بم بنانے کے قابل نہیں رہا اگر مستقبل میں ایسا کرے گا تو امریکی افواج اس سے نمٹ لے گی۔
تاہم ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کی جانب سے تاحال اس مبینہ جنگ بندی کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران اور اسرائیل
پڑھیں:
ٹرمپ کی پوٹن کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی ’آخری‘ کوشش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کو امن قائم کرنے یا نئی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن آٹھ اگست کو ختم ہو رہی ہے، اور اس سے صرف دو دن قبل امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف بدھ کے روز ایک اہم مشن پر ماسکو پہنچے تاکہ یوکرین جنگ بندی میں کسی پیش رفت کی کوشش کی جا سکے۔
وٹکوف کا استقبال روسی سرمایہ کاری کے ایلچی اور خودمختار ویلتھ فنڈ کے سربراہ کیرِل دمترییف نے کیا۔
سرکاری میڈیا نے دونوں کو کریملن کے قریب ایک پارک میں چہل قدمی کرتے اور سنجیدہ گفتگو میں مشغول دکھایا۔واشنگٹن میں روئٹرز سے بات کرنے والے ایک ذریعے نے منگل کو بتایا کہ وٹکوف بدھ کے روز روسی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
(جاری ہے)
کریملن کا کہنا ہے کہ ممکن ہے وہ صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں، لیکن اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
پوٹن کے ساتھ یوکرین میں امن معاہدے کی راہ میں پیش رفت نہ ہونے پر ٹرمپ شدید ناراض ہیں اور روسی برآمدات خریدنے والے ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
ٹرمپ خاص طور پر بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، جو چین کے ساتھ مل کر روسی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ کریملن کا کہنا ہے کہ روس سے تجارت کرنے والے ممالک کو سزا دینا غیر قانونی ہے۔
کریملن سے قریبی تعلق رکھنے والے تین ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ پوٹن کے ٹرمپ کی پابندیوں کی دھمکی کے آگے جھکنے کا امکان نہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں اور ان کے فوجی مقاصد امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے زیادہ اہم ہیں۔
فریقین کے لیے عزت بچانے کا آخری موقعآسٹریا کے تجزیہ کار گیرہارد مانگوٹ، جو ان مغربی ماہرین اور صحافیوں کے گروپ کا حصہ ہیں جو سالوں سے پوٹن سے ملاقات کرتے آئے ہیں، نے کہا، ''وٹکوف کا دورہ فریقین کے لیے عزت بچانے کا آخری موقع ہے۔ تاہم، میرے خیال میں دونوں کے درمیان کسی سمجھوتے کا امکان کم ہے۔‘‘
انہوں نے ٹیلیفون پر کہا، ''روس یہ مؤقف اپنائے گا کہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے، لیکن صرف ان شرائط پر جنہیں وہ گزشتہ دو یا تین سالوں سے دہرا رہا ہے۔
‘‘’’ٹرمپ پر دباؤ ہو گا کہ وہ وہی کریں جس کا انہوں نے اعلان کیا تھا، یعنی امریکہ روس سے تیل، گیس اور ممکنہ طور پر یورینیم خریدنے والے تمام ممالک پر محصولات عائد کرے۔‘‘
روسی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ پوٹن کو یقین ہے کہ مزید امریکی پابندیاں، جو ساڑھے تین سالہ جنگ کے دوران مسلسل لگتی آئی ہیں، اب زیادہ اثر نہیں ڈالیں گی۔
دو ذرائع کے مطابق، پوٹن نہیں چاہتے کہ وہ ٹرمپ کو ناراض کریں، اور انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ وہ واشنگٹن اور مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا ایک موقع کھو سکتے ہیں، لیکن ان کے جنگی مقاصد ان سب سے زیادہ اہم ہیں۔
زیلنسکی کی ٹرمپ سے گفتگویوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کے روز ایک ''مثبت‘‘ گفتگو کی، جس میں جنگ کے خاتمے، روس پر پابندیوں اور امریکہ-یوکرین ڈرون معاہدے پر تبادلہ خیال ہوا۔
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ ٹرمپ کو کییف اور دیگر یوکرینی شہروں پر جاری روسی حملوں کے بارے میں ''مکمل معلومات‘‘ دی گئیں۔ یہ گفتگو ایسے وقت پر ہوئی جب ٹرمپ روسی صدر پوٹن سے بڑھتی مایوسی کا شکار ہیں۔
ٹرمپ نے پوٹن کو 8 اگست تک کا وقت دیا ہے کہ وہ امن پر آمادہ ہو جائیں، ورنہ سخت پابندیوں کا سامنا کریں۔
زیلنسکی نے کہا، ''یقیناً ہم نے روس پر پابندیوں کے بارے میں بات کی۔ روسی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ماسکو اس معاملے میں حساس ہے اور صدر ٹرمپ کے عزم سے گھبراہٹ میں ہے۔ اور سب کچھ بدل سکتا ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین