وزرا کی فوج ظفر موج خزانے پر بوجھ بن چکی ہے،جاوید قصوری
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے آڈیٹرجنرل کی تازہ رپورٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے، سرکاری وسائل کا بے دریخ استعمال مال مفت دل بے رحم کے مترادف ہے۔وزرا کی فوج ظفر موج خزانے پر بوجھ بن چکی ہے جبکہ ان کی کارکردگی کہیں نظرنہیں آتی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری حکومت ہی ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہے۔ پنجاب حکومت کی 10کھرب کی بے ضابطگیوں،لوٹ مار،مالی بد عنوانی اور سرکاری فنڈز کا غلط استعمال نے مریم نواز شریف کی گڈ گورننس کا پول کھول دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تشہیری مہم اور ڈنگ ٹپاؤ اسکیموں کے پس پردہ کرپشن ہو رہی ہے۔ نا اہل حکمرانوں کے عوام دشمن فیصلوں نے صوبے کے عوام کو مایوس کر دیا ہے۔پہلے چینی برآمد کر دی گئی اور اب 7لاکھ50ہزار میڑک ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔درآمد برآمد کرنے کے اس دھندے میں شوگر مافیا دونوں ہاتھوں سے عوام اور حکومت دونوں کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ پنجاب حکومت کا کوئی ایک اقدام بھی ایسا نہیں نے میں شفافیت ہو، اگر حکومت کے اقدامات کو تھرڈ پارٹی آڈیٹ کروایا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنا آجائے گا۔ محمد جاوید قصوری نے مزید کہا کہ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں مہنگائی، بیروزگاری، گیس کی لوڈشیڈنگ، تعلیم، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور صاف پانی کی فراہمی اہم مسائل ہیں۔ صوبے میں لاقانونیت انتہا درجے کو پہنچ چکی ہے۔ کرپشن کی وجہ سے صورتحال تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ قومی وسائل کو جس بے دردی سے ضیاع کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی،بحیثیت قوم بے یقینی کا شکار ہیں،بے شمار وسائل کے باوجود غربت، جہالت، بے روزگاری، ناانصافی اور لاقانونیت کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چکی ہے
پڑھیں:
جمہوریت کے ثمرات سے محروم عوام
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا میں منائے جانے والے جمہوریت کے عالمی دن پر پاکستان میں بھی جمہوریت کے دعویداروں نے بڑے بڑے بیانات دیے اور جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور کہا کہ آئین ہر ایک کو تحفظ دیتا ہے جب کہ ایسا ہے نہیں اور تحفظ ہر شہری کو تو نہیں خاص لوگوں کو ضرور حاصل ہے۔
کہا گیا کہ جمہوریت بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے جب کہ عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ہی نہیں تو کیسا تحفظ اور کون سے بنیادی حقوق؟ بنیادی حقوق جو عوام کو آئین نے دیے ہیں وہ عوام جمہوریت کے نام پر اسمبلی ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا وہ بااثر اہم عہدوں پر تعینات اہم سرکاری افسر ہیں جو عوام کے ٹیکسوں پر عوام پر حکمرانی بھی کر رہے ہیں اور عوام کے نام پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور بنیادی حقوق کے لیے انھوں نے بیرون ملک وہاں کی شہریت بھی لے رکھی ہے اور اپنی فیملیز اور سرمایہ باہر منتقل بھی کر رکھا ہے اور پاکستان میں وہ عوام پر حکم چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔
حکمران اشرافیہ کے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ جمہوریت روشن مستقبل کی ضمانت ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کن کا روشن مستقبل؟ کیونکہ عوام کا تو یہاں مستقبل ہے ہی نہیں، تو روشن مستقبل تو صرف ایوانوں میں موجود ان کے نمایندوں کا ہی نظر آتا ہے جن کی جب چاہے حکومت مراعات اورکئی گنا تنخواہ آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر بڑھا دیتی ہے مگر جب عوام کو بجلی و گیس میں کچھ ریلیف دینے کی بات ہو یا سیلاب متاثرین کو بجلی بل میں رعایت دینا حکومتی مجبوری ہو تو آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
حکومت ارکان اسمبلی کے بعد وزیروں، بیوروکریٹس اور ججز پر مہربان ہو کر تنخواہیں بڑھانا چاہے بڑھا دیتی ہے مگر اسے عوام کے بنیادی حقوق یاد نہیں آتے اور بڑے عہدوں پر تعینات ان بڑوں کو خیال آتا ہے کہ ہم تو حکومت سے مفت بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر مراعات لے ہی رہے ہیں کچھ مراعات عوام کو بھی حکومت سے دلوا دیں کہ جنھیں مراعات کی ہم سے زیادہ ضرورت ہے اور ہم حکومت سے کہیں کہ آئین عوام کو بھی جمہوریت کے نام پر بنیادی حقوق دینے کی بات کرتا ہے تو ہمارے ساتھ ان کا بھی خیال کر لیا جائے۔
بیورو کریٹس اور ججزکا تو جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، جمہوریت سے تعلق تو صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کا ہی بنتا ہے۔
عوام کا تو اپنے نمایندوں کو جمہوریت کے نام پر ووٹ دے کر ان سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اس لیے منتخب نمایندے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ایوانوں میں جا کر اپنے مفادات کو ترجیح دیں اور اپنا تحفظ کریں تو وہ متحد ہو کر کر لیتے ہیں، انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ حکومت ہر بجٹ میں عوام پر ٹیکس لگا کر مہنگائی بڑھاتی ہے وہ بجٹ میں اس کی مخالفت ہی کر لیں تاکہ عوام کو فائدہ ہو مگر وہاں بھی وہ عوام کے بجائے حکومت کے مفادات کا ساتھ دیتے ہیں تاکہ نئے ٹیکسوں سے حکومت کی جو آمدنی بڑھے وہ آمدنی حکومت کو عوام کے بجائے ان ہی پر خرچ کرے۔
جمہوریت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ وہاں صرف اپنی بات کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ سرکاری دستاویزات پڑھے بغیر اس کی توثیق کر دیتے ہیں اور حکومت ان سے منٹوں میں درجنوں من پسند بل منظورکرا لیتی ہے کیونکہ ایوانوں میں یہی جمہوریت رائج ہے جس کے ثمرات سے صرف عوام ہی محروم رہتے ہیں۔
اپوزیشن کو بھی جمہوریت اس وقت یاد آتی ہے جب انھیں حکومت کی مخالفت میں شور شرابا کرنا، بجٹ و دیگر سرکاری دستاویزات پھاڑنی اور ایوان میں اچھالنی ہوں مگر جب سب کے مفاد کی بات ہو سب ایک ہو کر حکومتی مراعات قبول کر لیتے ہیں اور اپوزیشن اپنے ہفتوں کے بائیکاٹ کی مراعات اور تنخواہیں بھی وصول کر لیتی ہے اور یہ سب جمہوریت کے نام پر ہوتا ہے جس سے مستفید بھی یہ جمہوریت کے دعویدار ہوتے ہیں اور عوام محروم رہ کر اپنے نمایندوں کی طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر حکمران جمہوریت کا اپنی مرضی کا چہرہ پیش کرتے ہیں کیونکہ اس جمہوریت کو حکمران اشرافیہ ترقی کی اساس قرار دیتی ہے، تو پی ٹی آئی جمہوریت کے عالمی دن پر خاموش رہتی ہے کیونکہ ان کی جمہوریت صرف اپنے بانی کی رہائی، افغان دہشت گردوں کی حمایت اور حکومتی اداروں کی مخالفت ہی جمہوریت ہے جس کی وہ جدوجہد کر رہے ہیں۔