اسرائیل وایران تنازع: عالمی معیشت پر شدید اثرات، تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ مسلح تنازع نے عالمی معیشت کو شدید خدشات سے دوچار کر دیا ہے، تیل کی عالمی رسد میں خلل، آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش اور افراط زر کے بڑھتے خدشات نے بین الاقوامی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جب کہ امریکا، اسرائیل اور دنیا بھر میں اقتصادی بحران کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے کلیدی انفراسٹرکچر پر میزائل حملوں اور ایران کی جانب سے جوابی کارروائی نے توانائی کی عالمی منڈی میں زلزلہ برپا کر دیا، ایران کی تیل کی تنصیبات پر حملوں سے خام تیل کی فراہمی متاثر ہوئی جب کہ آبنائے ہرمز کی بندش کی افواہوں کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
آبنائے ہرمز خلیج فارس کو بحیرہ عمان سے جوڑتی ہے اور مشرق وسطیٰ سے دنیا بھر میں تیل اور مائع قدرتی گیس (LNG) کی ترسیل کا مرکزی راستہ ہے، اگر یہ آبی راستہ بند ہوتا ہے تو برینٹ خام تیل کی قیمت 110 سے 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے جو عالمی افراط زر میں شدید اضافے اور کساد بازاری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگر آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو عالمی مجموعی پیداوار (GDP) میں 0.
امریکا کی 37 ٹریلین ڈالر کی قرض زدہ معیشت پہلے ہی افراط زر، چین کے ساتھ تجارتی تنازعات اور اندرونی مالی دباؤ کا شکار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی نے توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور کساد بازاری کے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں امریکی معیشت جمود کا شکار ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کو ایران کے ساتھ اس تنازع کے باعث بھاری مالی و معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، ایک تخمینے کے مطابق اسرائیل کو روزانہ تقریباً 200 ملین ڈالر کا خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ایرانی میزائل حملوں کو روکنے کے لیے جدید ترین ڈیفنس سسٹمز “ڈیوڈ سلنگ” اور “ایرو 3” تعینات کیے گئے، جن کی لاگت فی میزائل 7 لاکھ سے 40 لاکھ ڈالر تک ہے، ایرانی اہداف پر حملے کے لیے F-35 طیارے استعمال کیے گئے جن کی فی گھنٹہ پرواز کی لاگت 10 ہزار ڈالر بتائی جا رہی ہے جب کہ بموں میں JDAM اور MK84 جیسے مہنگے ہتھیار شامل ہیں۔
خیال رہےکہ ایرانی حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے باعث 400 ملین ڈالر سے زائد کی تعمیر نو کی ضرورت ہو گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تیل کی
پڑھیں:
ایران میں خشک سالی شدید تر: تہران کے بعد مشہد میں پانی کا بحران خطرناک حد تک بڑھ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران اس وقت تاریخ کی بدترین خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ دارالحکومت تہران کے بعد اب مقدس شہر مشہد میں بھی پانی کی سنگین قلت نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
مقامی خبررساں ادارے کے مطابق مشہد میں پانی ذخیرہ کرنے والے تمام بڑے ڈیم خطرناک حد تک خالی ہو چکے ہیں اور ان میں پانی کی سطح تین فیصد سے بھی نیچے جا چکی ہے، جس کے باعث شہر میں پانی کی فراہمی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
مشہد میں پانی کی تقسیم کی ذمہ دار کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو شہر کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اب پانی کا انتظام محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایمرجنسی ضرورت بن چکا ہے۔ شہری علاقوں میں پانی کا دباؤ انتہائی کم ہو گیا ہے، جبکہ بعض علاقوں میں کئی گھنٹوں تک پانی دستیاب نہیں ہوتا۔
یہ بحران صرف مشہد تک محدود نہیں۔ اس سے قبل ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے تہران میں پریس کانفرنس کے دوران خبردار کیا تھا کہ اگر موسم نے ساتھ نہ دیا اور بارشیں نہ ہوئیں تو اگلے ماہ دارالحکومت میں پانی کی فراہمی محدود کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر خشک سالی جاری رہی تو تہران کو ممکنہ طور پر خالی بھی کرانا پڑ سکتا ہے کیونکہ پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
صدر پزشکیان نے اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے حکومتی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ پانی اور توانائی کے وسائل کے بہتر انتظام، بچت اور تحفظ کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کی موجودہ قلت صرف موسمی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ ایران کے کئی شمالی اور مغربی علاقوں میں بارشوں کی کمی اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو بھی متاثر کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو اگلے چند ماہ میں ایران کے مزید شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔