data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دبئی / لندن / ممبئی:سعودی عرب کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کی ایک نئی اور پُرکشش ٹی20 لیگ متعارف کرانے کے منصوبے کو اس وقت بڑا دھچکا پہنچا جب بھارت اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز نے نہ صرف حمایت واپس لے لی بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ حکمت عملی پر بھی عمل شروع کر دیا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین اور دیگر میڈیا ذرائع کی رپورٹس کے مطابق سعودی کرکٹ لیگ کا 400 ملین امریکی ڈالر کا منصوبہ اب خطرے میں پڑ چکا ہے۔

سعودی عرب کی کرکٹ کے میدان میں سرمایہ کاری کی دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی اور اس نے ایک بین الاقوامی معیار کی لیگ متعارف کروانے کے لیے دنیا بھر سے اسٹار کرکٹرز اور بورڈز کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مجوزہ لیگ میں 8 ٹیمیں شامل ہونی تھیں جنہیں ٹینس کے گرینڈ سلیمز فارمیٹ پر مختلف ممالک میں میچز کھیلنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس منفرد طرز پر مبنی ماڈل کو مارکیٹنگ اور گلوبل اسپانسرز کی سطح پر بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا تھا۔

تاہم کرکٹ کے 2بڑے اور طاقتور بورڈز بی سی سی آئی (بھارتی کرکٹ بورڈ) اور ای سی بی (انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ) نے سعودی منصوبے کو اپنی موجودہ لیگز کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے نہ صرف اس سے لاتعلقی اختیار کی بلکہ اس کی مخالفت میں متحد ہو گئے۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق دونوں بورڈز نے باہمی اتفاق سے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو سعودی لیگ میں شرکت کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری نہیں کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی دونوں بورڈز نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں لابنگ کے ذریعے سعودی لیگ کو بین الاقوامی حیثیت نہ دینے کے لیے بھی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ یہ صورتحال سعودی حکام کے لیے غیر متوقع اور تشویشناک ہے کیونکہ سعودی کرکٹ اتھارٹی اس منصوبے کو صرف ایک تفریحی ایونٹ کے طور پر نہیں بلکہ ایک مستقل اور عالمی سطح کی کرکٹ پراپرٹی کے طور پر متعارف کروانا چاہتی تھی۔

دوسری جانب کرکٹ آسٹریلیا نے اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور سعودی سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داری کی خواہش کا مظاہرہ کیا ہے۔ آسٹریلوی بورڈ کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس کی موجودہ بگ بیش لیگ فرنچائزز ریاستی کنٹرول میں ہیں اور وہاں نجی سرمایہ کاری کا نظام محدود ہے۔ سعودی لیگ جیسے ماڈلز کرکٹ آسٹریلیا کے لیے مالی منفعت کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت کی آئی پی ایل اس وقت دنیا کی سب سے مہنگی کرکٹ لیگ ہے، جس کی مارکیٹ ویلیو 12 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ انگلینڈ کی  دی ہنڈریڈ لیگ بھی سرمایہ کاروں کے لیے کشش رکھتی ہے اور اپنی 49 فیصد ٹیم حصص فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی انٹری ان لیگز کے تجارتی مفادات کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 3سال قبل جنوبی افریقا نے بھی اپنی ٹی20 لیگ کی فرنچائزز بھارتی سرمایہ کاروں کو فروخت کرکے 136 ملین امریکی ڈالر کی رقم جمع کی تھی۔ اس پس منظر میں سعودی عرب کا منصوبہ نہ صرف کرکٹ کی موجودہ طاقتوں کو چیلنج کر سکتا تھا بلکہ عالمی کرکٹ کا توازن بھی بدلنے کا امکان رکھتا تھا۔

یہ تمام حقائق اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگرچہ سعودی عرب کے پاس وسائل اور ویژن موجود ہے، لیکن عالمی کرکٹ میں پہلے سے موجود طاقتور مفادات کی دیواریں توڑنا آسان نہیں ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت، فائدے میں کون؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اگست 2025ء) اگرچہ پاکستان کو مجموعی طور پر برآمدات اور درآمدات میں تجارتی خسارے کا سامنا ہے لیکن امریکہ کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو فائدہ حاصل ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان نے امریکہ کو 25 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں، جبکہ اسی مدت میں امریکہ سے 15 ارب ڈالر سے کچھ زائد مالیت کی اشیاء درآمد کی گئیں، جس سے پاکستان کو 10 ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی سرپلس حاصل ہوا۔

تجارتی معاہدے اور مواقع

اس وقت پاکستان اور امریکہ دونوں اپنے تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے خواہش مند ہیں اور حال ہی میں ایک نئے تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان اپنی اقتصادی پالیسیوں میں اصلاحات کرے اور کاروباری عمل کو آسان بنائے تو وہ امریکی منڈی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے پاکستان پر بھارت کے مقابلے میں کم درآمدی محصولات عائد کیے ہیں۔

امریکہ نے حال ہی میں درآمدی ٹیرف میں تبدیلی کا اعلان کیا، جس کے تحت پاکستان پر 19 فیصد جبکہ بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیے گئے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''امریکہ کی جانب سے مختلف ٹیرف کی شرحوں سے پاکستان کو امریکی منڈی میں بھارت پر کچھ برتری حاصل ہو سکتی ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید بتایا، ''پاکستان، خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر میں، پیداواری لاگت کم کر کے اور کاروباری سہولتیں بڑھا کر برآمدات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ضروری اصلاحات اور نظام کی بہتری سے نہ صرف امریکہ بلکہ مجموعی برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہے۔‘‘

پاکستان کونسی مصنوعات برآمد کرتا ہے؟

پاکستان کی امریکہ کے لیے برآمدات میں 90 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کا ہے۔

مالی سال 2024 اور 25 میں مارچ تک پاکستان نے امریکہ کو 4.4 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں، جبکہ درآمدات 1.9 ارب ڈالر رہیں، جس سے 2.5 ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس حاصل ہوا۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران صرف سال 2020 سے 21 کے درمیان پاکستان کو امریکہ کے ساتھ 2.8 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا۔

ٹریڈنگ اکنامکس کے مطابق ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان کی برآمدات میں چمڑے کی مصنوعات، طبی آلات، پلاسٹک کی اشیاء، نمک، چائے، گندھک، مٹی، پتھر، پلاسٹر، چونا اور لوہا شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شعبوں میں اصلاحات اور توجہ سے برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔

دوسری طرف پاکستان امریکہ سے کپاس، لوہے اور اسٹیل کا سکریپ، کمپیوٹرز، پیٹرولیم مصنوعات، سویابین اور بادام درآمد کرتا ہے۔ دفاعی آلات اور پرزہ جات کی درآمدات کا حصہ حال ہی میں کم ہوا ہے۔

مستقبل کے امکانات

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کی بات چیت زور پکڑ رہی ہے۔

پاکستان معدنیات اور تیل کے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہتا ہے لیکن ذرائع کے مطابق ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔

خیبر پختونخوا بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ڈائریکٹر اقبال سرور نے بتایا، ''امریکی وفود کے دوروں کے دوران ہم سرمایہ کاری کے مواقع پیش کرتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا گیا۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہم نہ صرف معدنیات بلکہ سیاحت اور ہائیڈل پراجیکٹس میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع پیش کرتے ہیں لیکن امریکی سرمایہ کاروں کے ترجیحی شعبے واضح نہیں ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم کسی مخصوص قومیت تک محدود نہیں، خیبر پختونخوا میں 15 اکنامک زونز ہیں، جہاں سرمایہ کار صنعتیں اور تجارتی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں۔

‘‘ معدنیات ایکٹ ایک رکاوٹ؟

جب پوچھا گیا کہ کیا خیبر پختونخوا کا معدنیات ایکٹ سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے تو اقبال سرور نے جواب دیا، ''موجودہ ایکٹ بین الاقوامی سرمایہ کاری کی اجازت دیتا ہے۔ سیاسی نمائندوں نے صرف وہی شق مسترد کی، جو وفاق کی مداخلت کی وجہ سے صوبائی خودمختاری کو کمزور کرتی تھی۔ تاہم وفاق کے پاس آئینی ترمیم سمیت دیگر آپشنز موجود ہیں۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم سے سعودی سفیر کی ملاقات، ولی عہد کی جانب سے سرمایہ کاری فورم کا دعوت نامہ دیا
  • پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت، فائدے میں کون؟
  • سعودی وزیر خارجہ کی غزہ کی صورتحال پر عالمی ہم منصبوں سے رابطے، اسرائیلی منصوبے کی مذمت
  • سب سے بڑا منشیات فروش؛ ٹرمپ کا وینزویلا کے صدر کی گرفتاری پر 50 ملین ڈالر انعام کا اعلان
  • سعودی عرب کا اسرائیلی جارحیت پر شدید ردعمل، غزہ پر قبضے کو ظلم و بربریت قرار دے دیا
  • جولائی میں ترسیلات زر 3.2 ارب ڈالر، سالانہ بنیادوں پر 7.4 فیصد اضافہ
  • ٹرمپ کے 50فیصد ٹیرف نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا دیا، سرمایہ کاروں کے 50ارب ڈالر ڈوب گئے
  • امریکا نے وینزویلا کے صدرکی گرفتاری کے لیےانعامی رقم 50 ملین ڈالرکردی
  • ٹرمپ کے 50 فیصد ٹیرف نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا دیا، سرمایہ کاروں کے 50 ارب ڈالر ڈوب گئے
  • وینزویلا کے صدر کی گرفتاری میں مدد کرنے پر اب ڈبل انعام ملے گا، امریکا