ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیل ایک ممکنہ اقتصادی زوال سے بال بال بچ گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ طول پکڑتی، تو صرف 2 ماہ میں اسرائیل کو غزہ میں ہونے والی 2 سالہ اقتصادی لاگت کے برابر خسارہ برداشت کرنا پڑتا۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ کا دوبارہ امکان نہیں، تہران سے اگلے ہفتے معاہدہ ہو سکتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی نے بحران کے دھانے پر کھڑے اسرائیل کو وقتی ریلیف فراہم کیا، حالانکہ ملک کی وفاقی حکومت ایک ایسے مالی بوجھ سے دوچار تھی جو کسی بڑے معاشی مندی کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔

اس جنگ کے باعث شہری زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ سیاحت اور کاروباری سرگرمیاں رُک گئیں، یہاں تک کہ معروف ہوٹل چین ’ڈین ہوٹلز‘ نے اپنی نصف شاخیں بند کر دیں۔

اس کے علاوہ بندرگاہوں کی سیکیورٹی متاثر ہوئی اور میرسک جیسی عالمی شپنگ کمپنی نے حیفا پورٹ کے قریب حملے کے بعد اپنی نقل و حرکت روک دی۔

 اس جنگ سے سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی اور مغربی کنارے میں ایندھن اور ضروری اشیائے خوردونوش کی کمی نے جنم لیا۔

یہ بھی پڑھیں:موساد کے سربراہ کا ایران کیخلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان

معاشی دباؤ نے عام شہریوں کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ تعطیلات منسوخ کریں، غیر ضروری اخراجات کم کریں اور مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دب جائیں۔

اسرائیل کی معیشت پر جنگ کے اخراجات بھاری پڑے۔ صرف ابتدائی 2 دنوں میں 1.

45 ارب ڈالر خرچ ہو گئے، جبکہ اس کے بعد روزانہ اوسطاً 72 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اضافی نقصان ریکارڈ کیا گیا۔

ان اخراجات نے ملک کے دفاعی بجٹ کو 2024 میں 49.4 ارب ڈالر تک پہنچا دیا، جو کل فوجی اخراجات کا 8.4 فیصد بنتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی قومی قرضہ بڑھ کر 370 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تقریباً 69 فیصد ہے، یہ سطح کووڈ-19 کے بعد کی بلند ترین سطحوں میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران پر پابندیاں یا مذاکرات؟ ٹرمپ کا دوہرا پیغام سامنے آ گیا

ماہرین کے مطابق یہ جنگ زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ کے معروف اقتصادی تجزیہ کار ناصر عبد الکریم کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ جاری رہتی تو اسرائیلی معیشت مستقل دباؤ سے باہر نہ نکل پاتی، اور ممکن تھا کہ عوامی احتجاج میں شدت آ جاتی۔

اُن کے مطابق یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ اسرائیل کے اندرونی حالات پہلے ہی معاشی بہتری سے مشروط تھے، اور مزید عدم استحکام پورے معاشرتی نظام کو ہلا کر رکھ سکتا تھا۔

جنگ بندی ایک ایسے وقت پر عمل میں آئی جب اسرائیلی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ اگرچہ سنیما، ہوٹل اور تجارت جیسے کئی شعبے بری طرح متاثر ہوئے، لیکن جنگ بندی نے وقتی طور پر ملک کو مالی بحران سے بچا لیا۔

 اب اسرائیل کے لیے اصل چیلنج اقتصادی توازن کی بحالی ہے، کیونکہ موجودہ نقصان نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور مقامی منڈیوں کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اسرائیلی معیشت ایران ایران اسرائیل جنگ ٹرمپ جنگ بندی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیلی معیشت ایران ایران اسرائیل جنگ

پڑھیں:

حماس نے صدر ٹرمپ کے نام خط میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پیش کردی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جہاں حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط کے ذریعے 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، حماس نے اس جنگ بندی کے بدلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کے تقریباً نصف حصے کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

یہ خط فی الحال قطر کے پاس موجود ہے، جو اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس خط کو رواں ہفتے کے آخر میں صدر ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔ اگرچہ حماس نے ابھی تک اس خط پر باضابطہ دستخط نہیں کیے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں ایسا کیا جانے کا امکان ہے۔

اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی اپنے آزاد ذرائع سے اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ یہ پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ایک اہم اجلاس جاری ہے، جس میں کم از کم چھ مغربی ممالک کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کی توقع ہے۔

یرغمالیوں کے تبادلے کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے مطابق حماس کے پاس اس وقت 48 اسرائیلی یرغمالی ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ رپورٹس کے مطابق، تقریباً 20 یرغمالی زندہ ہیں، جبکہ باقی کی لاشیں واپس لانے کے لیے بھی مذاکرات جاری ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطر نے حال ہی میں ثالثی کی کوششیں معطل کر دی تھیں، بعد ازاں اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس نئی پیشکش سے خطے میں امن کے امکانات نے ایک بار پھر جنم لیا ہے، تاہم امریکا اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ پیشکش قبول کرلی جاتی ہے تو یہ غزہ میں انسانی المیے کو روکنے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی کمی اور ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر اس معاہدے کے امکانات غیر یقینی ہیں۔

ویب ڈیسک تنویر انجم

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن فارمولا پیش ، صدر ٹرمپ کا عرب رہنماؤں کو خصوصی پیغام
  • ایشیا کپ: پاکستان اور بھارت فائنل میں کتنی مرتبہ آمنے سامنے آچکے ہیں؟
  • غزہ جنگ بندی کیلئے ٹرمپ کے 21 نکاتی منصوبے کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں
  • ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی کے 21 نکاتی امن فارمولے پر عرب رہنماؤں نے تجاویز پیش کر دیں
  • صدر ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو غزہ جنگ بندی کیلیے 21 نکاتی امن فارمولا پیش کردیا
  • ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا
  • ایران پر امریکا اسرائیل حملہ خطے میں امن پر کاری وار تھا، صدر مسعود پیزشکیان
  • مہنگی طبی سہولیات
  • مذاکرات کی آڑ میں اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے،  امیر قطر
  • حماس نے صدر ٹرمپ کے نام خط میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پیش کردی