ایران،اسرائیل جنگ ،مسلم دنیا کے لیے چشم کشا اسباق
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نہ صرف دو ریاستوں کے مابین عسکری تصادم تھا، بلکہ اس نے پوری مسلم امہ کو ایک کٹھن آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ یہ جنگ صرف میزائلوں اور ڈرونز کا تبادلہ نہیں تھی، بلکہ فلسطین کے مظلوموں کے لیے ایک امید اور مسلم اتحاد کے لیے ایک موقع تھی، جو ایک بار پھر ضائع ہو گیا۔ آج جب جنگ کا غبار چھٹ چکا ہے، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں تبصرے ہو رہے ہیں، تجزیے چھپ رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ اسرائیل ایران جنگ پر مسلم دنیا کا مجموعی ردِعمل کیا رہا؟ اور کیا یہ ردِعمل امت کے شایانِ شان تھا؟ کئی عرب ممالک نے ایران کے ساتھ سیاسی و مسلکی اختلافات کی بنیاد پر غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا، حالانکہ ایران کی عسکری کاروائیاں دراصل اسرائیلی بربریت کے خلاف تھیں۔ ایران کو نظر انداز کر کے ان ممالک نے درحقیقت فلسطین کی جدوجہد کو کمزور کیا، جس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو پہنچا۔ اگر بات کریں او آئی سی کی تو وہ ایک مردہ گھوڑے یا بےبس تماشائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کا کردار محض بیانات تک محدود رہا۔ کوئی ہنگامی اجلاس، کوئی مشترکہ قرارداد، کوئی مؤثر عملی قدم سامنے نہیں آیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کی یہ بےحسی اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو، ایک عالمی مسلم بلاک قائم کرے، مشترکہ خارجہ پالیسی وضع کرے، اور مظلوموں کے دفاع کے لیے عملی اقدامات کرے، ورنہ تاریخ ہمیں بےحسی کے مجرموں میں شمار کرے گی۔
یہ تباہ کن جنگ مسلم دنیا کے لیے گہرے غور و تدبر اور خود احتسابی کا لمحہ ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ جنگ چند ہفتوں میں اپنے انجام کو پہنچی، لیکن اس کے اثرات، پیغامات اور اسباق کئی دہائیوں تک مسلم اُمہ کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔ خصوصاً غزہ میں جاری انسانی المیہ اور اسرائیلی بربریت کے تناظر میں اس جنگ نے مسلم ممالک کے کردار، اتحاد، سفارتی اہلیت اور دفاعی کمزوریوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ چند چشم کشا پہلوؤں سے اس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ (1) ایران کو اسرائیل کے حملوں کا تنہا سامنا کرنا پڑا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بڑے مسلم ملک نے عملی طور پر اس کا ساتھ نہیں دیا۔ چند رسمی بیانات، سفارتی ناپسندیدگی اور کچھ علامتی احتجاجات کے سوا مسلم دنیا سے کوئی مشترکہ، مؤثر یا متفقہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہی حال غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ یہ صورت حال اس ناقابل تردید حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ مسلم دنیا آج بھی شدید داخلی تقسیم، باہمی عدم اعتماد اور قیادت کے بحران کا شکار ہے (2) اس جنگ نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، خاص طور پر امریکہ، مسلم دنیا کے اصل دشمن ہیں۔ جہاں ایک جانب ایران کے جوہری پروگرام پر شور و غوغا کیا گیا، وہیں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر عالمی خاموشی گہرا تضاد ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر ہونے والی بمباری، ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانے کے باوجود مغرب کی طرف سے “انسانی حقوق” کی دہائی سنائی نہیں دی۔ اس منافقانہ رویے پر مسلم دنیا کو اب آنکھیں کھولنی ہوں گی۔(3) ایران نے میزائل، ڈرون اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجیز کا استعمال کر کے واضح کیا کہ اگرچہ وہ معاشی پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک ہے، لیکن دفاع کے لیے خود پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے برعکس، بیشتر عرب ممالک مغرب سے اسلحہ خریدنے، دفاعی مشاورت لینے اور سیکیورٹی معاہدے کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ جب تک مسلم ممالک اپنی دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل نہیں کریں گے، وہ کسی بحران میں آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ (4) اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، یا بین الاقوامی میڈیا، سب نے ایک طرفہ بیانیہ اپنایا۔ ایران کے میزائلوں کو “خطرہ برائے امن” قرار دیا گیا، جبکہ اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں، خواتین اور شہریوں کی ہلاکتوں کو “دفاعی اقدام” کا نام دیا گیا۔ فلسطینی عوام کو انسانی حقوق کی بات کرنے والے عالمی اداروں نے عملاً تنہا چھوڑ دیا۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا اقوام متحدہ کے متبادل ایک نیا عالمی فورم بنانے پر سنجیدگی سے غور کرے۔ (5) ایران کو دنیا بھر میں بالخصوص مسلم دنیا کی عوام کی زبردست اخلاقی حمایت حاصل رہی۔ پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک میں عوام نے مظاہروں، ریلیوں اور غزہ سے اظہار یکجہتی کے ذریعے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی، لیکن ان ممالک کی حکومتیں اکثر زبانی مذمت سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم عوام بیدار ہو چکے ہیں، مگر ان کی قیادت اب بھی مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ (6) اسرائیل نے دنیا کے میڈیا پر اپنے بیانیے کو نہ صرف مسلط کیا بلکہ متاثرہ فریق کو مجرم بنا کر پیش کیا۔ مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کی لاشوں کو “جنگی نقصان” کہہ کر اسرائیلی ریاست کی صفائی پیش کی۔ اس سے یہ سبق ملا کہ مسلم دنیا کو اپنا بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورک قائم کرنا ہو گا جو ان کے موقف کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کر سکے۔ (7) ایران-اسرائیل جنگ نے جس طرح مسلم دنیا کو جھنجھوڑا، غزہ کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور جذباتی آزمائش ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر افراد، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور بھوک سے بلکتے بچے، یہ سب مسلم دنیا کی بے حسی اور غفلت پر ایک کربناک سوالیہ نشان ہیں۔ اس وقت غزہ کو صرف مذمتی بیانات نہیں، بلکہ بھرپور عملی امداد، سفارتی مہمات، انسانی ہمدردی، اور تعمیر نو کے عزم کی ضرورت ہے۔ (8) ایران-اسرائیل جنگ اور غزہ کا بحران اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلم ممالک صرف وقتی ردعمل سے آگے بڑھ کر ایک جامع پالیسی وضع کریں۔ اس پالیسی کے اہم نکات درج ذیل ہو سکتے ہیں: (1) ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ جس میں تمام مسلم ممالک کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں۔ (2) ایک اسلامی انسانی امدادی نیٹ ورک جو ہر بحران میں فوری رسپانس دے سکے۔ (3) ایک اسلامی میڈیا اتحاد جو عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو اجاگر کرے۔(4) ایک سیاسی و سفارتی بلاک جو عالمی اداروں میں فلسطینی حقوق کی مؤثر وکالت کرے۔
ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ محض دو ریاستوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ضمیر کا امتحان تھا۔ یہ جنگ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے، خود پر انحصار نہیں کریں گے، اور دشمن کو پہچان کر عملی اقدامات نہیں اٹھائیں گے، ہم اسی طرح تماشائی بنے رہیں گے۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، قدم اٹھانے کا، اور اُمت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ مسلم دنیا مسلم دنیا کے مسلم ممالک ہے کہ مسلم کے لیے یہ جنگ اور اس
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بندی؛ ٹرمپ نے دنیا کو حیران کردینے والا کارنامہ کیسے انجام دیا
اسرائیل اور ایران کے درمیان گھمسان کی جنگ جو مزید طویل، وسیع، اور شدید ہونے جا رہی تھی لیکن گزشتہ شب اچانک اور غیر متوقع طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کردیا۔
امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کرکے صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقوں کو بھی سرپرائز دیا۔
امریکی عہدیدار نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان طے پاجانے والے جنگ بندی معاہدے سے متعلق اپنی کابینہ کو بھی اُس وقت بتایا جب تک وہ خود سب کچھ فائنل کرچکے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے صدر ٹرمپ نے قطر کی ثالثی میں اسرائیلی وزیراعظم اور ایرانی حکومت سے بات چیت کی۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے جنگ بندی کی بات چیت میں کردار ادا کیا تھا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی ان کوشششوں کی صدر ٹرمپ نے کسی بھنک بھی نہ پڑنے دی اور اپنے بیانات سے بھی ایسے ظاہر کرتے آئے جیسے وہ جنگ کو طول دے رہے ہو۔
امریکی عہدے دار نے مزید بتایا کہ ایرانی قیادت سے امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے قطر کی ثالثی میں رابطہ کیا تھا کیوں یہ حضرات گزشتہ اپریل سے جوہری معاہدے کی کوششوں میں بھی ایران کے ساتھ رابطے میں تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان تینوں امریکی عہدیداروں نے ایرانی حکام سے براہ راست اور بالواسطہ دونوں ذرائع سے رابطے کیے تھے۔
امریکی عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ ان سفارتی کوششوں کے ساتھ جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کا سہرا اُن امریکی فضائی حملوں کو بھی جاتا ہے جس میں ایران کی 3 یورینیم افزودگی کی تنصیبات اصفہان، نطنز، اور فردو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے بھی جنگ بندی کا سہرا انھی حملوں کو دیا تھا۔
امریکی اخبار کے بقول ان عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ ایران نے کن شرائط پر جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی اور کیا ایران نے افزودہ یورینیم کے ذخائر سے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہفتے سے زائد دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اسرائیلی حملوں میں ان حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور 14 سے زائد جوہری سائنس دان جاں بحق ہوگئے تھے۔