Islam Times:
2025-10-04@23:32:26 GMT

محرم الحرام حق، صبر اور قربانی کا واضح پیغام

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

محرم الحرام حق، صبر اور قربانی کا واضح پیغام

اسلام ٹائمز: محرم الحرام ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم امام حسین کے پیغام کو کس حد تک اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟ کیا ہم ظلم کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں۔؟ کیا ہم خود کو دنیا کے مفادات سے بلند کرکے حق کیساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔؟ محرم صرف تعزیہ، جلوس اور رونے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے، جو ہمیں عمل، سوچ اور طرزِ زندگی میں انقلاب لانے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے ضمیر کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آیا ہم حق کیساتھ ہیں یا صرف روایت نبھا رہے ہیں۔ محرم ہمیں اپنے اردگرد کے مظلوموں، محروموں اور بےآوازوں کیطرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ حسینی کردار اپنانا صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔ تحریر: ظہیر حسین دانش

اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اور یہ محض کیلنڈر کا ایک مہینہ نہیں، بلکہ ایک عظیم پیغام کا حامل مہینہ ہے۔ محرم ہمیں تاریخ کے ایک ایسے لمحے کی یاد دلاتا ہے، جب حق اور باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ برپا ہوا، جس نے رہتی دنیا تک حق کی راہ کو روشن کر دیا۔ یہ مہینہ ہمیں امام حسین اور ان کے جانثار ساتھیوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے دین کی اصل روح کو بچانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ محرم الحرام کو قرآن مجید میں حرمت والے مہینوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مہینوں میں قتال ممنوع ہے، تاکہ امن، عبادت اور تزکیہ نفس کا ماحول قائم رہے۔ مگر محرم کی حرمت کو سب سے بلند مرتبہ اس وقت ملا جب نواسۂ رسول اکرم (ص) امام حسین نے باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور ایک ایسا لازوال باب رقم کیا، جو آج بھی ضمیرِ انسانیت کو جھنجھوڑتا ہے۔

کربلا کوئی عام معرکہ نہ تھا۔ یہ جنگ نیزوں اور تلواروں سے زیادہ اصولوں اور ایمان کی تھی۔ ایک طرف طاقت، اقتدار، لشکر اور دنیاوی ساز و سامان سے لیس حکومت تھی، تو دوسری طرف ایک چھوٹا سا قافلہ تھا، جو حق، سچ، صبر، وفا اور قربانی سے لیس تھا۔ امام حسین نے کربلا میں یہ ثابت کیا کہ جیت صرف اس کی نہیں ہوتی، جو طاقتور ہو، بلکہ اصل جیت اس کی ہے، جو اصولوں پر قائم رہے، چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ کربلا میں صرف مردوں نے نہیں بلکہ خواتین اور بچوں نے بھی عظیم کردار ادا کیا۔ حضرت زینب نے جس صبر، استقامت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا، وہ ہر دور کی عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت علی اکبر کی جوانمردی، حضرت قاسم کی معصومیت، حضرت عباس کی وفاداری اور علی اصغر کی معصوم قربانی سب اس بات کی علامت ہیں کہ قربانی کا جذبہ عمر، رشتہ یا مقام کا محتاج نہیں ہوتا۔

محرم ہمیں ایثار کا حقیقی مفہوم سکھاتا ہے۔ ایثار صرف مالی قربانی نہیں، بلکہ اپنی خواہشات، آرام، مفادات اور حتیٰ کہ زندگی تک کو حق کی راہ میں قربان کر دینا ہی اصل ایثار ہے۔ امام حسین نے مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا کا سفر اسی لیے کیا کہ دین کے نام پر قائم ہونے والی اقتدار کی صورت کو چیلنج کیا جا سکے۔ وہ جانتے تھے کہ خاموشی حق کا قتل ہوگا اور وہ خاموشی کے بجائے شہادت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ سچائی کی راہ پر چلنا آسان نہیں ہوتا۔ باطل ہمیشہ خود کو طاقت، خوف، لالچ یا دھوکہ کے ذریعے غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کربلا کے قافلے نے بتا دیا کہ جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے، وہ کسی ظالم سے نہیں ڈرتا۔ انہوں نے بھوک، پیاس، تنہائی اور شہادت کا سامنا کیا، لیکن حق کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔

محرم الحرام ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم امام حسین کے پیغام کو کس حد تک اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔؟ کیا ہم خود کو دنیا کے مفادات سے بلند کرکے حق کے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔؟ محرم صرف تعزیہ، جلوس اور رونے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے، جو ہمیں عمل، سوچ اور طرزِ زندگی میں انقلاب لانے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے ضمیر کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آیا ہم حق کے ساتھ ہیں یا صرف روایت نبھا رہے ہیں۔ محرم ہمیں اپنے اردگرد کے مظلوموں، محروموں اور بےآوازوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ حسینی کردار اپنانا صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: محرم الحرام ہمیں اپنے رکھتے ہیں رہے ہیں کرتا ہے دیتا ہے میں یہ کیا ہم

پڑھیں:

پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وائس آف امریکا سے وابستہ سینئر صحافی محمد عاطف نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ جب سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا ہے تو خطّے اور دنیا کے ممالک کو پتا چل گیا ہے کہ پاکستان اپنے سب سے بڑے عرب اتحادی کی حفاظت کے لیے تیار ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے واضح اشارہ ہے کہ اُسے اب خطّے کے اندر اپنی کارروائیاں سوچ سمجھ کر کرنا ہوں گی۔

اسرائیل کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ پاکستان کی افواج بالکل اُس کے بارڈر کے ساتھ آ کر بیٹھ جائیں گی۔ غزہ امن معاہدے میں پاکستان کی اہمیت اس وجہ سے سامنے آئی کہ پاکستان مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی اہمیت اس وجہ سے بھی نہیں بنتی کہ وہ معاشی طور پر کمزور ملک ہے یا مشرقِ وسطٰی سے باہر واقع ہے۔ بلکہ فلسطین میں قیامِ امن کے لیے جو بین الاقوامی فورس (آئی ایس ایف) بنانے کی تجویز دی گئی ہے اُس میں پاکستان کا کردار اس لیے اہم ہو سکتا ہے کہ یہاں معیاری اور تربیت یافتہ فوج موجود ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان کا کردار سامنے آ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

غزہ امن معاہدے کو متشکّل ہونا ہی پڑے گا

محمد عاطف نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں صدر ٹرمپ کے ساتھ 8 اسلامی ممالک کی میٹنگ ہوئی تھی اور اس کے بعد صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کا اعلان کیا۔ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گا یا نہیں، ظاہر ہے قطر اسے قبول کرنے کا مشورہ دے گا۔

دوسری طرف صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ اس طرح بین الاقوامی اتھارٹی بنے گی جس کا وہ سربراہ ہوں گے۔ اگر ساری شرائط طے ہو جائیں تو کسی بھی فریق کے پاس معاہدہ قبول نہ کرنے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔

صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔ جو قوّتیں اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گی اُنھیں بھی دیکھنا پڑے گا۔

اسرائیلی وزیراعظم اپنے داخلی سیاسی مفادات کے لیے متنازع بیانات دیتے ہیں

غزہ امن معاہدے کے خلاف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات کے حوالے سے محمد عاطف نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر یہ بیانات دیتے ہیں۔ جب وہ امریکا آتے ہیں تو صدر ٹرمپ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہیں، مگر واپس جا کر سیاسی دباؤ کی وجہ سے متنازع بیانات دے دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دورہِ پاکستان کے دوران کن معاہدوں پر دستخط کریں گے؟

اُن کی حکومت میں قدامت پسند دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں جو ’گریٹر اسرائیل‘ کی بات کرتی ہیں، اس لیے وہ داخلی سیاسی تقاضوں کے تحت ایسے بیانات سے باز نہیں آتے۔ یہ چیز صدر ٹرمپ کی کریڈیبلٹی کو بھی متاثر کرتی ہے۔

کیا مجوزہ بین الاقوامی نظام ناکام ہو سکتا ہے؟

غزہ امن معاہدے کی گارنٹی کوئی یقینی طور پر نہیں دے سکتا کیونکہ معاہدے میں بھی لکھا گیا ہے کہ جب تک حماس اور دیگر مسلح تنظیمیں ہتھیار پھینک نہیں دیں گی، معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دوسری طرف اسرائیلی افواج پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ طیش میں آ کر پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہ ہوں اور معاہدے میں طے شدہ حدود کے اندر رہیں۔

ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج کو بس ایک موقع چاہیے ہوتا ہے، جس کے بعد وہ کسی معمولی کارروائی کا جواب بہت بڑی کارروائی کے ساتھ دے دیتے ہیں۔ اس معاہدے میں یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ ایسی کارروائیوں پر کس طرح قابو پایا جائے گا۔

کیا غزہ میں تعینات بین الاقوامی فورسز اس حوالے سے ذمہ داری اٹھائیں گی؟ اور یہ بین الاقوامی فورس کن ممالک پر مشتمل ہوگی؟ ان اور دیگر کئی امور کو بتدریج واضح کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: مسلم سربراہان کے اصرار پر غزہ مسئلے کا حل نکلا، پورے معاملے میں سعودی عرب اور پاکستان کا کردار کلیدی تھا، حافظ طاہر اشرفی

فلسطینی اتھارٹی کو کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت

محمد عاطف نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی پر ماضی میں الزامات رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی فنڈز کو صحیح انداز میں استعمال نہیں کرتی اور گزشتہ 10 سال سے انتخابات بھی نہیں کرائے گئے۔ اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔

اے پیک اور امریکی سیاست میں یہودی اثر و رسوخ

امریکی سیاست میں اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد عاطف نے کہا کہ اس کا بڑا سبب ’اے پیک‘ تنظیم کا اثر ہے، جو امریکی صدارتی اور دیگر انتخابات میں فنڈنگ کرتی ہے۔ اے پیک امریکا میں ایک مضبوط لابی ہے۔

نئی منتخب ہونے والی کئی شخصیات اے پیک کی مالی معاونت لیتی ہیں اور بعد از انتخاب انہیں اسرائیل کے ٹور پر لے جایا جاتا ہے۔ اسی لیے پالیسی سطح پر اسرائیل کے خلاف کم آوازیں اٹھتی ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی کابینہ کا اجلاس: فلسطین کے حق میں سفارتکاری اور پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کی توثیق

امریکی عوام میں تقسیم

فلسطینیوں پر مظالم کے حوالے سے امریکی عوام کے رویّے پر محمد عاطف نے کہا کہ امریکا کی پالیسی عمومی طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ طویل عرصے تک امریکیوں نے اسرائیل کو مظلوم قوم کے طور پر دیکھا۔ تاہم اب امریکن عوام میں واضح تقسیم دکھائی دینے لگی ہے۔

خاص طور پر 30 سال سے کم عمر ووٹر سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نہیں کرنی چاہیے، جبکہ 50، 60، 70 سال کے افراد عموماً اسرائیل کے حق میں ہیں کیونکہ وہ اسے خطے کا دفاعی حامی سمجھتے ہیں۔ گزشتہ 2 سال کی جنگ نے امریکی عوام میں حمایت کے حوالے سے نمایاں تقسیم پیدا کر دی ہے۔

کیا امریکی گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کے باوجود پالیسی متاثر ہوگی؟

امریکا میں گورنمنٹ شٹ ڈاؤن کے حوالے سے محمد عاطف نے بتایا کہ یہ عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ بجٹ پاس نہیں ہوتا۔ جب بجٹ پاس نہیں ہوتا تو عارضی یا قلیل المدتی اخراجاتی بل پاس کرکے ضروری خدمات کو جاری رکھا جاتا ہے، اور بعض اوقات وفاقی ملازمین کو وقتی طور پر گھر بھی بھیجا جاتا ہے۔

تاہم اس شٹ ڈاؤن کے دوران دفاع، سفارتکاری اور دیگر بنیادی ادارے عام طور پر کام جاری رکھتے ہیں، اس لیے مجموعی طور پر ملک کو شدید خطرات لاحق نہیں ہوتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا پاک سعودی دفاعی معاہدہ پاکستان سعودی عرب سینئر صحافی محمد عاطف وائس آف امریکا

متعلقہ مضامین

  • دل کی بات زبان پر، پنجاب کو امداد کی ضرورت نہیں تو ہمیں دیں،فیصل کنڈی
  • بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، ہمیں کوئی فکر نہیں، ہر وقت جواب دینے کیلیے تیار رہتے ہیں: سیکیورٹی ذرائع
  • فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری، اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے واضح کردیا
  • مشاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلیے بااثر یورپی ملک سے رابطے میں ہیں،اسحق ڈار
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • ابھی تک واضح نہیں کہ کچھ افراد صیہونی بحری فوج کی حراست میں ہیں یا نہیں ؟
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • ربیع الاول میں عمرے کی ادائیگی کا اوسط دورانیہ 115 منٹ رہا، رپورٹ
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف
  • ’میں عمیر جسوال کی واحد بیوی ہوں، کسی سے موازنہ نہ کریں‘، گلوکار کی اہلیہ کا ناقدین کو واضح پیغام