محرم الحرام حق، صبر اور قربانی کا واضح پیغام
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محرم الحرام ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم امام حسین کے پیغام کو کس حد تک اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟ کیا ہم ظلم کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں۔؟ کیا ہم خود کو دنیا کے مفادات سے بلند کرکے حق کیساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔؟ محرم صرف تعزیہ، جلوس اور رونے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے، جو ہمیں عمل، سوچ اور طرزِ زندگی میں انقلاب لانے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے ضمیر کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آیا ہم حق کیساتھ ہیں یا صرف روایت نبھا رہے ہیں۔ محرم ہمیں اپنے اردگرد کے مظلوموں، محروموں اور بےآوازوں کیطرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ حسینی کردار اپنانا صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔ تحریر: ظہیر حسین دانش
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اور یہ محض کیلنڈر کا ایک مہینہ نہیں، بلکہ ایک عظیم پیغام کا حامل مہینہ ہے۔ محرم ہمیں تاریخ کے ایک ایسے لمحے کی یاد دلاتا ہے، جب حق اور باطل کے درمیان ایک ایسا معرکہ برپا ہوا، جس نے رہتی دنیا تک حق کی راہ کو روشن کر دیا۔ یہ مہینہ ہمیں امام حسین اور ان کے جانثار ساتھیوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے دین کی اصل روح کو بچانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ محرم الحرام کو قرآن مجید میں حرمت والے مہینوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مہینوں میں قتال ممنوع ہے، تاکہ امن، عبادت اور تزکیہ نفس کا ماحول قائم رہے۔ مگر محرم کی حرمت کو سب سے بلند مرتبہ اس وقت ملا جب نواسۂ رسول اکرم (ص) امام حسین نے باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور ایک ایسا لازوال باب رقم کیا، جو آج بھی ضمیرِ انسانیت کو جھنجھوڑتا ہے۔
کربلا کوئی عام معرکہ نہ تھا۔ یہ جنگ نیزوں اور تلواروں سے زیادہ اصولوں اور ایمان کی تھی۔ ایک طرف طاقت، اقتدار، لشکر اور دنیاوی ساز و سامان سے لیس حکومت تھی، تو دوسری طرف ایک چھوٹا سا قافلہ تھا، جو حق، سچ، صبر، وفا اور قربانی سے لیس تھا۔ امام حسین نے کربلا میں یہ ثابت کیا کہ جیت صرف اس کی نہیں ہوتی، جو طاقتور ہو، بلکہ اصل جیت اس کی ہے، جو اصولوں پر قائم رہے، چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ کربلا میں صرف مردوں نے نہیں بلکہ خواتین اور بچوں نے بھی عظیم کردار ادا کیا۔ حضرت زینب نے جس صبر، استقامت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا، وہ ہر دور کی عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت علی اکبر کی جوانمردی، حضرت قاسم کی معصومیت، حضرت عباس کی وفاداری اور علی اصغر کی معصوم قربانی سب اس بات کی علامت ہیں کہ قربانی کا جذبہ عمر، رشتہ یا مقام کا محتاج نہیں ہوتا۔
محرم ہمیں ایثار کا حقیقی مفہوم سکھاتا ہے۔ ایثار صرف مالی قربانی نہیں، بلکہ اپنی خواہشات، آرام، مفادات اور حتیٰ کہ زندگی تک کو حق کی راہ میں قربان کر دینا ہی اصل ایثار ہے۔ امام حسین نے مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا کا سفر اسی لیے کیا کہ دین کے نام پر قائم ہونے والی اقتدار کی صورت کو چیلنج کیا جا سکے۔ وہ جانتے تھے کہ خاموشی حق کا قتل ہوگا اور وہ خاموشی کے بجائے شہادت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ سچائی کی راہ پر چلنا آسان نہیں ہوتا۔ باطل ہمیشہ خود کو طاقت، خوف، لالچ یا دھوکہ کے ذریعے غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کربلا کے قافلے نے بتا دیا کہ جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے، وہ کسی ظالم سے نہیں ڈرتا۔ انہوں نے بھوک، پیاس، تنہائی اور شہادت کا سامنا کیا، لیکن حق کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔
محرم الحرام ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم امام حسین کے پیغام کو کس حد تک اپنی زندگیوں میں شامل کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔؟ کیا ہم خود کو دنیا کے مفادات سے بلند کرکے حق کے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔؟ محرم صرف تعزیہ، جلوس اور رونے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے، جو ہمیں عمل، سوچ اور طرزِ زندگی میں انقلاب لانے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے ضمیر کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ آیا ہم حق کے ساتھ ہیں یا صرف روایت نبھا رہے ہیں۔ محرم ہمیں اپنے اردگرد کے مظلوموں، محروموں اور بےآوازوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ حسینی کردار اپنانا صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محرم الحرام ہمیں اپنے رکھتے ہیں رہے ہیں کرتا ہے دیتا ہے میں یہ کیا ہم
پڑھیں:
آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے:سلمان اکرم راجا
اسلام آباد:پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ کھڑے ہونے کا وقت آگیا. آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں۔لاہور ہائی کورٹ بار کے تحت 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف اور مستعفی ججز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آج جنرل ہاؤس اجلاس ہوا جس کی صدارت لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر ملک آصف نسوانہ نے کی.اجلاس میں سلمان اکرم راجہ، صدر لاہور بار مبشر رحمان چوہدری سمیت دیگر وکلا نے شرکت کی۔سلمان اکرم راجہ نے جنرل ہاؤس اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ہمیں کھڑا ہونا ہے ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہے، اس ملک میں عوام کے حقوق کی جنگ ابھی تک جاری ہے، عوام کو حقیر جانا جاتا ہے، آٹھ فروری کو جو ہوا وہ انسانیت کی توہین ہے، پاکستان واحد ملک ہے جہاں سول بندے کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کو رد کیا انھوں نے آئینی بینچ سے منظور کروا لیا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اسی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں جو پی ٹی آئی کو ملنی تھی وہ دوسری پارٹیوں کو دے دیں، آئینی عدالت کا سربراہ وزیراعظم نے لگایا اور باقی جج اس سربراہ نے لگائے، ہماری برسوں کی جدوجہد ہے ہمیں اپنی نسلوں کے لیے اٹھنا ہوگا، ہم گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 20v07ء میں جب نکلے تھے تو دروازوں پر زنجیریں تھیں .لیکن ہمارے جذبہ ایمانی نے زنجیریں توڑ دیں تھیں، آج پھر وقت آ گیا ہے کھڑے ہونے کا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں۔