سانحہ سوات، ابتدائی رپورٹ میں اہم انکشافات، ہوٹل مالکان کی غفلت اور انتظامیہ کی ناکامی بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
سوات میں حالیہ سیلابی سانحے کی ابتدائی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے۔
رپورٹ کے مطابق بارشوں اور گلیشئیر پھٹنے کے الرٹ پہلے سے جاری کیے جا چکے تھے لیکن اس کے باوجود کئی ہوٹل مالکان نے دریائے سوات کے اندر چارپائیاں اور کرسیاں لگا کر سیاحوں کو بیٹھنے کی سہولت فراہم کی جو سانحے کا بڑا سبب بنی۔
متاثرہ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ تھی جس کے تحت ہوٹل مالکان کو دریا کے اندر کوئی ڈھانچہ بنانے سے منع کیا گیا تھا تاہم، کئی ہوٹل مالکان نے ان ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں غفلت برتی جس کے نتیجے میں یہ سنگین سانحہ پیش آیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دریائے سوات کے کنارے بنے کئی ہوٹلز غیر قانونی تجاوزات کی شکل میں ہیں اور ان کی ملکیت بااثر سیاسی اور سرکاری شخصیات کے پاس ہے، اس وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلقہ اداروں میں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔
سرکاری محکموں کے درمیان ذمہ داریوں کے تعین پر بھی کھینچا تانی جاری ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: رپورٹ میں
پڑھیں:
‘قرض اتارو ملک سنوارو’ ایک اسکیم تھی جسکا مقدر تاریخی ناکامی بنا، سینیٹر پلوشہ کی حکومت پر تنقید
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر پلوشہ خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے بعد زرعی ایمرجنسی میں کچھ نہیں، اس میں دی گئی ریلیف کوئی معنی نہیں رکھتی۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک مہینے کے بلوں کی معافی کی کوئی اہمیت نہیں، جب تک ڈوبے ہوئے گھرانے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوتے بل معاف ہونے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیے: نہ ملک سنورا نہ قرضہ اترا
سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ‘قرض اتارو ملک سنوارو’ بھی ایک اسکیم تھی، تاریخی ناکامی اس کا مقدر بنی، اس کی ناکامی کا قصہ پھر کبھی سنائیں گے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پنجاب کو فتح نہیں کیا گیا ہے، یہ صوبہ اگر ووٹ کی بنیاد پر ایک حکومت کے پاس آسکتا ہے وہ دوسرے کے پاس بھی جاسکتا ہے، جس طرح صوبائیت پھیلائی جا رہی ہے اور جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے وہ اتحادی کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں، ہم جواب دینے کا حق رکھتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں