پنجاب بھر میں موسلادھار بارش اور آندھی کے باعث مختلف حادثات رونما ہوئے، جن میں کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق، زیادہ تر اموات چھتوں اور دیواروں کے گرنے کے سبب ہوئیں۔
 لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش اور آندھی کے باعث مختلف حادثات میں 7 بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 39 زخمی ہوگئے ہیں۔
 پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے 25 سے 27 جون تک بارشوں کے دوران 25 حادثات کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں چھتیں اور دیواریں گرنے کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق موسمی شدت کے باعث ہونے والے ان حادثات میں سب سے زیادہ نقصان چھتوں اور دیواروں کے گرنے سے ہوا، جس سے متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے۔
 وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر جاں بحق افراد کے اہلخانہ کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔
 حکام نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خراب موسم میں سفر سے گریز کریں اور محفوظ مقام پر رہ کر اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟

امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز

دنیا بھر میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع حاصل کرنے کی دوڑ ہمیشہ جاری رہی ہے۔ کبھی امریکا اس میدان میں سب سے آگے تھا، لیکن اب چین بھی اپنی پالیسیوں کے ذریعے بڑی تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکا نے اپنے مشہور ایچ ون بی ویزا کی فیس میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے، جبکہ چین نے ایک نیا اور سہل پروگرام ’کے ویزا‘ لانچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

چین دنیا کے بہترین ٹیلینٹ، بہترین دماغوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس صورتحال نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے، دونوں میں اصل فرق کیا ہے؟ امریکا کا ایچ ون بی ویزا زیادہ موثر ہوگا یا لوگ چین کے ”کے ویزا“ کو کیوں ترجیح دے سکتے ہیں؟

امریکا کا ایچ ون بی ویزا 1990 میں متعارف ہوا تھا۔ اس کا مقصد دنیا بھر سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو امریکا میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس ویزے کے تحت ہر سال 65 ہزار افراد کو اجازت دی جاتی ہے جبکہ امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کرنے والے مزید 20 ہزار امیدواروں کے لیے خصوصی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ ویزے سب سے زیادہ بھارتی اور چینی شہریوں کو ملتے ہیں، لیکن بھارتی شہری سب سے آگے ہیں۔

اگرچہ یہ ویزا ہنر مند افراد کے لیے امریکا جانے کا خواب پورا کرتا رہا ہے، تاہم اب امریکی حکومت نے اس کی لاگت اتنی بڑھا دی ہے کہ کئی کمپنیوں اور درخواست دہندگان کے لیے اسے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اب ہر درخواست دہندہ پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر تک فیس لاگو کی جا رہی ہے جو چھ سال تک ادا کرنا ہوگی۔ اس فیصلے نے امریکا آنے والے غیر ملکی ماہرین کے لیے راہیں تنگ کر دی ہیں۔

اس کے برعکس چین نے اگست 2025 میں ”کے ویزا“ کا اعلان کیا جو یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

’’کے ویزا‘‘کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لیے درخواست دہندگان کو کسی چینی کمپنی، ادارے یا مالک کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی نوکری کی پیشگی پیشکش لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی نیا گریجویٹ ہو یا آزاد محقق، وہ براہ راست چین آ کر نوکری تلاش کر سکتا ہے یا اپنا کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ یہ سہولت اسے دیگر موجودہ چینی ویزوں سے منفرد بناتی ہے۔

مزید یہ کہ’’کے ویزا‘‘رکھنے والے افراد کو تعلیم، تحقیق، صنعت اور کاروبار کے میدانوں میں زیادہ آزادی دی گئی ہے۔
اگر دونوں کا تقابل یا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے۔ امریکی ایچ ون بی میں، نہ صرف فیس بہت زیادہ ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص کوٹہ بھی مقرر ہے اور درخواست دہندہ کو لازمی طور پر کسی کمپنی کی اسپانسرشپ درکار ہوتی ہے۔

جبکہ اس کے برعکس چین کا ”کے ویزا“ حاصل کرنا زیادہ لچکدار اور سہل ہے۔ اس میں فیس کا بوجھ نہیں، دعوت نامے کی شرط نہیں اور زیادہ اقسام کے مواقع میسر ہیں۔ چین اس پروگرام کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو عالمی ٹیلنٹ کے لیے نہایت پرکشش بنا رہا ہے تاکہ دنیا کے بہترین ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔

چین کی یہ حکمت عملی اس کے حالیہ اقدامات کے ساتھ جڑی ہے۔ اس نے شنگھائی، شینگھن اور دیگر بڑے شہروں میں ہائی ٹیک پارکس قائم کیے ہیں جہاں پرائیویٹ اور سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

چین خاص طور پر مصنوعی ذہانت، خلائی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ سسٹمز اور آئی ٹی کے شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت جیسے ممالک کے انجینئرز اور سائنسدان وہاں منتقل ہوتے ہیں تو چین کو تحقیق اور اختراع میں نئی جان مل سکتی ہے۔

اس سارے منظرنامے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ صرف چین ہی نہیں بلکہ تائیوان جیسے دیگر ایشیائی ممالک بھی ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں، اور چونکہ امریکا نے ویزا پالیسی مشکل اور مہنگی بنا دی ہے، اس لیے ہنر مند افراد نئی منزلوں کی تلاش میں چین اور دیگر ایشیائی ممالک کا انتخاب کر رہے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں ویڈیو ریکارڈنگ پر پابندی عائد کر دی ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں برقی سیڑھی کی خرابی ’سازش‘ قرار دے دی مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل انڈیا: لداخ میں خودمختاری کے مطالبے پر احتجاج، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک ایٹم بم بنانے کی کبھی کوشش کی اور نہ کریں گے، ایرانی صدر انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ؛ غزہ میں امن فوج کیلیے 20 ہزار سے زائد اہلکار بھیجنے کا اعلان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بادل، پہاڑ اور بارشیں: دنیا کے گیلے ترین علاقے میگالیہ کے گاؤں کی دلچسپ کہانی
  • بلوچستان کے دو اضلاع میں ٹریفک حادثات، 11 افراد جاں بحق اور 28 زخمی
  • بھارتی ریاست میگھالیہ میں سالانہ 11ہزار ملی میٹر بارش
  • دنیا کا سب سے گیلا ترین خطہ کہاں ہے؟
  • محکمہ موسمیات کی ملک کے مختلف علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور ژالہ باری کی پیشگوئی
  • ڈی آئی خان: گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 13افراد جاں بحق
  • ڈی آئی خان: گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق
  • کراچی حادثات و واقعات میں 4 جاں بحق، 13 زخمی
  • امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟
  • سُپر طوفان رگاسا نے تائیوان میں تباہی مچا دی، مختلف حادثات میں 17 افراد ہلاک اور 24 لاپتا