امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز
دنیا بھر میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع حاصل کرنے کی دوڑ ہمیشہ جاری رہی ہے۔ کبھی امریکا اس میدان میں سب سے آگے تھا، لیکن اب چین بھی اپنی پالیسیوں کے ذریعے بڑی تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکا نے اپنے مشہور ایچ ون بی ویزا کی فیس میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے، جبکہ چین نے ایک نیا اور سہل پروگرام ’کے ویزا‘ لانچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
چین دنیا کے بہترین ٹیلینٹ، بہترین دماغوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس صورتحال نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے، دونوں میں اصل فرق کیا ہے؟ امریکا کا ایچ ون بی ویزا زیادہ موثر ہوگا یا لوگ چین کے ”کے ویزا“ کو کیوں ترجیح دے سکتے ہیں؟
امریکا کا ایچ ون بی ویزا 1990 میں متعارف ہوا تھا۔ اس کا مقصد دنیا بھر سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو امریکا میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس ویزے کے تحت ہر سال 65 ہزار افراد کو اجازت دی جاتی ہے جبکہ امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کرنے والے مزید 20 ہزار امیدواروں کے لیے خصوصی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ ویزے سب سے زیادہ بھارتی اور چینی شہریوں کو ملتے ہیں، لیکن بھارتی شہری سب سے آگے ہیں۔
اگرچہ یہ ویزا ہنر مند افراد کے لیے امریکا جانے کا خواب پورا کرتا رہا ہے، تاہم اب امریکی حکومت نے اس کی لاگت اتنی بڑھا دی ہے کہ کئی کمپنیوں اور درخواست دہندگان کے لیے اسے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اب ہر درخواست دہندہ پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر تک فیس لاگو کی جا رہی ہے جو چھ سال تک ادا کرنا ہوگی۔ اس فیصلے نے امریکا آنے والے غیر ملکی ماہرین کے لیے راہیں تنگ کر دی ہیں۔
اس کے برعکس چین نے اگست 2025 میں ”کے ویزا“ کا اعلان کیا جو یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
’’کے ویزا‘‘کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لیے درخواست دہندگان کو کسی چینی کمپنی، ادارے یا مالک کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی نوکری کی پیشگی پیشکش لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی نیا گریجویٹ ہو یا آزاد محقق، وہ براہ راست چین آ کر نوکری تلاش کر سکتا ہے یا اپنا کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ یہ سہولت اسے دیگر موجودہ چینی ویزوں سے منفرد بناتی ہے۔
مزید یہ کہ’’کے ویزا‘‘رکھنے والے افراد کو تعلیم، تحقیق، صنعت اور کاروبار کے میدانوں میں زیادہ آزادی دی گئی ہے۔
اگر دونوں کا تقابل یا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے۔ امریکی ایچ ون بی میں، نہ صرف فیس بہت زیادہ ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص کوٹہ بھی مقرر ہے اور درخواست دہندہ کو لازمی طور پر کسی کمپنی کی اسپانسرشپ درکار ہوتی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس چین کا ”کے ویزا“ حاصل کرنا زیادہ لچکدار اور سہل ہے۔ اس میں فیس کا بوجھ نہیں، دعوت نامے کی شرط نہیں اور زیادہ اقسام کے مواقع میسر ہیں۔ چین اس پروگرام کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو عالمی ٹیلنٹ کے لیے نہایت پرکشش بنا رہا ہے تاکہ دنیا کے بہترین ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔
چین کی یہ حکمت عملی اس کے حالیہ اقدامات کے ساتھ جڑی ہے۔ اس نے شنگھائی، شینگھن اور دیگر بڑے شہروں میں ہائی ٹیک پارکس قائم کیے ہیں جہاں پرائیویٹ اور سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
چین خاص طور پر مصنوعی ذہانت، خلائی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ سسٹمز اور آئی ٹی کے شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت جیسے ممالک کے انجینئرز اور سائنسدان وہاں منتقل ہوتے ہیں تو چین کو تحقیق اور اختراع میں نئی جان مل سکتی ہے۔
اس سارے منظرنامے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ صرف چین ہی نہیں بلکہ تائیوان جیسے دیگر ایشیائی ممالک بھی ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں، اور چونکہ امریکا نے ویزا پالیسی مشکل اور مہنگی بنا دی ہے، اس لیے ہنر مند افراد نئی منزلوں کی تلاش میں چین اور دیگر ایشیائی ممالک کا انتخاب کر رہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں ویڈیو ریکارڈنگ پر پابندی عائد کر دی ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں برقی سیڑھی کی خرابی ’سازش‘ قرار دے دی مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل انڈیا: لداخ میں خودمختاری کے مطالبے پر احتجاج، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک ایٹم بم بنانے کی کبھی کوشش کی اور نہ کریں گے، ایرانی صدر انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ؛ غزہ میں امن فوج کیلیے 20 ہزار سے زائد اہلکار بھیجنے کا اعلانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں.عالمی بنک کا انکشاف
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔24 ستمبر ۔2025 )عالمی بنک نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو ملکی آبادی کا25اعشاریہ3فیصد ہے اپنی نئی رپورٹ میں ورلڈ بنک نے کہا ہے کہ پاکستان کی ماضی میں غربت میں کمی کی امید افزا سمت اب ایک تشویشناک رکاوٹ کا شکار ہو گئی ہے، جس سے برسوں میں مشکل سے حاصل کی گئی کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں.(جاری ہے)
عالمی بنک کی رپورٹ حکومت کے ان دعوﺅں اور اعدادوشمارکی نفی کرتی ہے جن کے مطابق ملک میں غربت کم ہورہی ہے آزاد ذرائع کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 25فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں49فیصد کے قریب لوگ نئے کپڑے خریدنے کے قابل نہیں رہے جس کی وجہ سے پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں اور دیگر گھریلو اشیاءکی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی بنک کی رپورٹ حالیہ سیلاب‘بجٹ اور قومی خسارے کو پورا کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے معاشی اقدامات سے پہلے کی ہے ‘حالیہ سیلاب سے لاکھوں خاندان اور ان کا روزگار متاثرہوا ہے جس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا کیونکہ ملک میں بجٹ کے بعد مالی سال کا آغازجولائی میں ہوتا ہے اور مالی سال کے آغازکے ساتھ ہی نئے ٹیکس‘ڈیوٹیز‘قیمتوں میں اضافے جیسے اقدامات پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے . عالمی بنک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 میں غربت کی شرح 64.3 فیصد تھی جو 2018 میں کم ہو کر 21.9 فیصد تک آگئی تھی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2015 تک سالانہ اوسطاً تین فیصد کی شرح سے غربت میں واقع ہوئی تاہم اس کے بعد یہ شرح کم ہو کر ایک فیصد پوائنٹ سے بھی کم رہ گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں غربت کی شرح دوبارہ بڑھ کر 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے. ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں غربت کی شرح نمایاں طور پر مختلف ہے پنجاب میں غربت کی شرح 16.3 فیصد ہے جو کہ ملک میں سب سے کم ہے لیکن آبادی کے بڑے حجم کی وجہ سے ملک کے 40 فیصد غریب اسی صوبے میں رہتے ہیں بلوچستان جو کہ ملک کا سب سے غریب صوبہ ہے وہاں 42.7 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے تاہم مجموعی طور پر کم آبادی کے باعث صوبے میں ملک کے بارہ فیصد غریب موجود ہیں سندھ اور خیبر پختونخوا میں غربت کی شرح بالترتیب 24.1 اور 29.5 فیصد ہے. رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے بعد سے آنے والے مسلسل بحرانوں سے پاکستان میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کو گہرا دھچکا لگا ہے ورلڈ بینک کے مطابق کووڈ 19 کی وبا نے ملک کو شدید صحت اور معاشی بحران سے دوچار کیا جس کا سب سے زیادہ اثر غیر رسمی شعبے پر پڑا جو کہ 85 فیصد سے زائد پاکستانیوں کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے کورونا وبا کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے، آمدن میں کمی آئی اور شہری غریب آبادی کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس عرصے کے دوران قومی سطح پر غربت کی شرح بڑھ کر 24.7 فیصد تک پہنچ گئی. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی عدم استحکام اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی قوتِ خرید کو شدید متاثر کیا ہے صورتِ حال اس وقت مزید ابتر ہوگئی جب 2022 کے تباہ کن سیلابوں نے تین کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا، لاکھوں مکانات کو نقصان پہنچایا اور روزگار کے ذرائع تباہ کیے.