بادل، پہاڑ اور بارشیں: دنیا کے گیلے ترین علاقے میگالیہ کے گاؤں کی دلچسپ کہانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں جہاں ایک طرف کئی علاقے خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہیں، وہیں کچھ مقامات ایسے بھی ہیں جہاں بارش کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہوتا۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست میگھالیہ انہی میں سے ایک ہے، جسے کرۂ ارض کا سب سے زیادہ بارش والا (گیلا) خطہ قرار دیا جاتا ہے۔
میگھالیہ میں 2 مقامات عالمی ریکارڈز کی بدولت نمایاں ہیں۔ پہلا اور سب سے مشہور موسین رام (Mawsynram) ہے، جو دنیا کا سب سے زیادہ بارش والا گاؤں مانا جاتا ہے۔ یہاں اوسط سالانہ بارش تقریباً 11,800 ملی میٹر تک ریکارڈ کی گئی ہے، جو تقریباً 12 میٹر کے برابر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر بارش کا پانی جمع کرلیا جائے تو پورا گاؤں پانی کے نیچے سمجھا جا سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پر چیررا پُنجی (Cherrapunji) آتا ہے، جو ایک زمانے تک دنیا کا سب سے گیلا مقام کہلاتا تھا۔ یہاں اوسط سالانہ بارش تقریباً 11,000 ملی میٹر تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگرچہ اب یہ موسین رام سے پیچھے ہے، لیکن آج بھی اپنی زبردست بارشوں اور سرسبز مناظر کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔
یہاں اتنی زیادہ بارش ہونے کی بڑی وجہ جغرافیائی محلِ وقوع ہے۔ خلیجِ بنگال سے اٹھنے والے مونسون کے بادل جب خاسی اور جینتیا پہاڑی سلسلے سے ٹکراتے ہیں تو بارش کی جھڑیاں ایک طوفانی سلسلے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میگھالیہ کے یہ مقامات دنیا بھر میں موسمیاتی ماہرین کے لیے ریسرچ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
ان مسلسل بارشوں کے باعث یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے اور ہریالی ہر سمت دکھائی دیتی ہے۔ البتہ مقامی افراد کے لیے مسلسل بارش ایک بڑی آزمائش بھی ہے کیونکہ روزمرہ زندگی اکثر متاثر ہوتی رہتی ہے۔
یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ موسین رام اور چیررا پُنجی صرف سیاحتی کشش ہی نہیں رکھتے بلکہ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے موسموں کی ایک منفرد مثال بھی ہیں، جو انسان کو فطرت کی طاقت اور تنوع کی یاد دلاتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سیٹ 1C زندگی اور موت کے درمیانی لمحے کی علامت ہے، طیارہ حادثے میں بچ جانے والے ظفر مسعود کی کہانی
زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود کے لیے بھی ایک ایسا لمحہ سنہ 2020 کے بدقسمت طیارہ حادثے کے وقت پیش آیا تھا جس میں معجزانہ طور پر صرف 2 افراد زندہ بچے تھے جن میں سے ایک وہ خود تھے اور جہاز میں ان کی نشست تھی سیٹ 1C جو اب ان کی کتاب کا بھی نام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی اور احمد آباد طیارہ حادثے میں کیا چیزیں ایک جیسی تھیں؟ ظفر مسعود نے بتادیا
وی نیوز ایکسکلیوسیو میں اینکرپرسن عمار مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی کتاب کا نام سیٹ 1C اس لیے رکھا گیا کہ جب وہ طیارے میں سوار ہوئے تو یہی ان کی نشست تھی۔
ظفر مسعود او جی ڈی سی ایل کے چیئرمین رہنے کے علاوہ کئی دیگر اداروں میں بھی اہم ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اس سانحے کے بعد جو کچھ ان پر گزرا وہ سب انہوں نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کے بینکنگ شعبہ میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے سی ای اوز کون ہیں؟
’سیٹ 1C ان کے لیے زندگی اور موت کے درمیان لکھی جانے والی کہانی کی علامت بن گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جہاز زمین کی طرف آیا تو ایک لمحے کو یقین ہو گیا کہ اب سب ختم ہے اور زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں لیکن قدرت نے کرشمہ دکھایا اور آنکھ کھلی تو وہ اسپتال میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لمحہ گویا ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس حادثے نے ان کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کتاب لکھنا آسان نہیں تھا کیونکہ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی کمزوریاں چھپاتے ہیں لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ سچائی کو نہیں چھپائیں گے اور اگر اپنی غلطیاں و کمزوریاں نہ لکھتے تو یہ کتاب محض رسمی رہ جاتی۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ حقیقت جانیں۔
گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ حادثے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ہمارا معاشرہ اجتماعی تکبر میں مبتلا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور ہمیں کسی سے مدد کی ضرورت نہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سچائی سے کتراتے ہیں اور اعتراف نہیں کرتے اور یہی رویہ ہمارے اداروں اور نظام کو کمزور کرتا ہے۔
ظفر مسعود نے بہادری کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ ان کے نزدیک بہادری یہ نہیں کہ کوئی جنگ لڑے یا بڑے کارنامے سرانجام دے بلکہ اصل بہادری یہ ہے کہ انسان روایت کے خلاف کھڑا ہو۔
مزید پڑھیں: سیٹ تبدیل نہ کرتا تو آج زندہ نہ ہوتا طیارہ حادثہ میں بچ جانے والا خوش قسمت مسافر
وہ کہتے ہیں کہ ذہنی صحت کے مسائل کو تسلیم کرنا اور ان کے علاج کے لیے مدد لینا بہادری ہے۔ ان کے نزدی جھوٹ نہ بولنا اور اپنی کمزوریوں کو مان لینا بھی بہادری ہے۔
کتاب کا پیغام: عاجزی، سچائی اور انسانیتظفر مسعود نے کہا کہ اس کتاب کا اصل پیغام یہ ہے کہ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں عاجزی اور سچائی کے ساتھ جینا چاہیے اور یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم سب انسان ہیں، کمزور ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: آخری پیغام میں کیا لکھا تھا؟ طیارہ حادثے سے بچنے کے بعد عدنان صدیقی نے بتادیا
ظفر مسعود نے اس لمحے کی شدت، اس کے بعد کی جنگ، معاشرتی رویوں اور اندرونی کرب کو اپنی کتاب Seat 1C میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب محض ایک حادثے کی روداد نہیں بلکہ زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے کا سبق بھی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صدر بینک آف پنجاب ظفر مسعود طیارہ حادثہ ظفر مسعود