غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ فلسطینی علاقوں، خصوصاً غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم ایک بڑے انسانی المیے میں بدل چکے ہیں، لیکن عالمی ضمیر کی خاموشی نہ صرف افسوسناک بلکہ انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ دھبا بن چکی ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے ’’مسافر یطا‘‘ میں 13 فلسطینی بستیوں کو مکمل طور پر مسمار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گزشتہ چار ہفتوں میں اسرائیلی فوج کی جانب سے امدادی مراکز کے باہر موجود افراد پر فائرنگ کے نتیجے میں 549 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ ہولناک اعداد و شمار جنگی جرائم کے زمرے میں شمار کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اسرائیلی منصوبے پر عملدرآمد ہوا تو کم از کم 1200 افراد، جن میں 500 سے زائد بچے شامل ہیں، جبراً بے دخل کیے جائیں گے۔ غزہ میں خوراک، ادویات اور طبی عملے کی شدید کمی کے سبب ہزاروں بچوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ 17 ہزار سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ اسپتالوں میں عملہ اور وسائل نہ ہونے کے باعث سرجریز مؤخر کی جا چکی ہیں۔ اسرائیلی حملوں کا دائرہ رفح، جبالیہ، خان یونس اور تفاح محلہ جیسے علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ انسانی جانوں کی اس بے قدری کے خلاف اقوام متحدہ کے بیانات اور تشویش محض رسمی دکھائی دیتی ہیں جن کا دنیا پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ ایک اور خبر آئی کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور آبادکاروں نے ایک جنازے پر حملہ کر کے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کفر مالک گاؤں میں فلسطینی نوجوانوں نے مزاحمت کر کے ثابت کر دیا کہ اسرائیلی جبر کے باوجود فلسطینی قوم کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایک طرف تو عدالت میں بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے جس کی تکلیف بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہے، دوسری طرف ’’سیکورٹی امور‘‘ کی آڑ میں مظالم کو مزید تیز کر چکا ہے۔ اسرائیلی عدلیہ کی جانب سے ان کی سماعت مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ خود اسرائیل کے اندر بھی داخلی خلفشار بڑھ رہا ہے۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ جہاں ایک طرف غزہ میں بچوں کی بھوک موت کا پیغام بن چکی ہے، وہیں برطانیہ جیسے ’’جمہوری‘‘ ممالک میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے افراد کو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہ دہرا معیار اقوام عالم کی منافقت اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی اصل حقیقت بے نقاب کرتا ہے۔ دنیا اگر واقعی عالمی قوانین، انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کی پاسداری کی دعویدار ہے، تو اسے اسرائیلی مظالم کے خلاف عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ الفاظ، بیانات اور رسمی مذمت اب فلسطینیوں کی جان نہیں بچا سکتے۔ وقت آ چکا ہے کہ مسلم دنیا اور اقوام متحد ہو کر اسرائیلی حکومت پر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی دباؤ بڑھائیں، تاکہ نہتے فلسطینیوں کا خون مزید نہ بہے، اور ایک پائیدار، منصفانہ حل کی راہ ہموار ہو۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں اسرائیلی
پڑھیں:
آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آسٹریلوی حکومت نے سنگین جرائم کے احتساب کے لیے افغان طالبان حکومت کے خلاف نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کی ہیں، جن کی ہیومن رائٹس واچ نے بھی حمایت کی ہے۔
حکومت نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر طالبان کے لیے پابندیوں کے قوانین میں ترامیم زیر غور ہیں، جن کے ذریعے افغانستان کے لیے مخصوص معیار متعارف کرائے جائیں گے اور سفری پابندیاں عائد کی جا سکیں گی۔
آسٹریلوی ڈائریکٹر ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ مجوزہ ترامیم انسانی حقوق کے مجرم طالبان کے احتساب کی جانب اہم قدم ہیں، کیونکہ طالبان کی خواتین کے بنیادی حقوق پر قدغنیں جرمِ انسانیت اور صنفی ظلم و ستم کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق ماہرین طالبان کے خواتین کے خلاف منظم مظالم کو صنفی تفریق قرار دے چکے ہیں، جبکہ طالبان حکام نے سول آزادیوں کو محدود کرتے ہوئے صحافیوں اور کارکنان کو حراست اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔