گلیشیئرپگھلنے کا سلسلہ تیز: دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گلگت بلتستان : بالائی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے، جس کے باعث دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے۔ کئی نشیبی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں، جب کہ متاثرہ علاقوں میں مقامی افراد اور سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ضلع غذر کی تحصیل یاسین میں پانی کے شدید کٹاؤ کے باعث کئی علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق پل اور سڑکیں شدید متاثر ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف آمد و رفت رک گئی ہے بلکہ ہنگامی امدادی سرگرمیوں میں بھی خلل پیدا ہو رہا ہے۔
گلگت بلتستان کے مختلف سیاحتی علاقوں میں موجود ملکی و غیر ملکی سیاح بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ بعض مقامات پر ہوٹلوں تک رسائی ممکن نہیں رہی، اور مواصلاتی نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل جولائی اور اگست میں مزید تیز ہو سکتا ہے، جس سے فلیش فلڈ (اچانک آنے والے سیلاب) کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ متعلقہ اداروں کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور عوام سے احتیاط برتنے کی اپیل کی گئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو ٹیمیں متاثرہ علاقوں کی جانب روانہ کی گئی ہیں، جبکہ بعض خطرناک مقامات سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔ تاہم، مواصلاتی نظام کی خرابی کے باعث کئی علاقوں میں صورتحال سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہو پا رہی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگر گلیشیئرز کا پگھلنے اسی رفتار سے جاری رہا تو آئندہ دنوں میں مزید علاقوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں فوری امدادی سامان اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علاقوں میں گئی ہے گیا ہے
پڑھیں:
بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں ’ڈینگی بخار کی تباہی‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے غیر متوقع موسم اور وسیع تر ڈیلٹا علاقے میں، جہاں برہم پترا اور گنگا کا پانی سمندر سے ملتا ہے، صاف پینے کے پانی کی شدید کمی اس اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔
رکیب الاسلام راجن نے بتایا کہ ان کی دو سالہ بیٹی اپنی ماں زرین کو ڈھونڈتی رہتی ہے، جو جون کے شروع میں جنوبی علاقے باریسال میں ڈینگی سے انتقال کر گئی تھیں، ''زرین کو تیز بخار ہوا… ان کا بلڈ پریشر گر گیا اور پھر وہ سانس نہ لے سکیں‘‘۔
31 سالہ راجن کا مزید کہنا تھا، ''ہماری بیٹی ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک اسے ڈھونڈتی رہتی ہے۔‘‘
ڈینگی بخار ہو جائے تو شدید صورتوں میں اس سے اندرونی یا منہ اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے۔
(جاری ہے)
انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی، ڈیزیز کنٹرول اینڈ ریسرچ (آئی ای ڈی سی آر) کے مطابق باریسال میں اس سال ملک بھر کے 7,500 ڈینگی کیسز میں سے تقریباً نصف رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس سال باریسال میں پانچ افراد ڈینگی سے ہلاک ہوئے، جبکہ 170 ملین کی آبادی والے اس ملک میں کل 31 اموات ریکارڈ کی گئیں۔
یہ تعداد سن 2023 کے مہلک پھیلاؤ سے اب بھی بہت کم ہے، جب جنوبی ایشیا کے اس ملک میں 17 سو سے زائد افراد ہلاک اور دو لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
باریسال کے برگنا ضلع میں ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ باریسال کے ہیلتھ چیف شیمول کرشنا مونڈل نے کہا کہ یہ ''بدترین صورت حال ہے، جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
‘‘برگنا کے 250 بستروں والے سرکاری ہسپتال میں 200 سے زائد ڈینگی مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ کرشنا مونڈل کا مزید کہنا تھا، ''ہم بستر بھی فراہم نہیں کر سکے، مریض فرش پر لیٹ کر علاج کروا رہے ہیں۔‘‘
جہانگیر نگر یونیورسٹی میں بیماریوں کے ماہر کبیرالبشیر نے کہا کہ صاف پانی کی کمی ''ایک بڑی وجہ‘‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ بارش کا پانی کنٹینرز میں ذخیرہ کرتے ہیں، جو مچھروں کے لیے پسندیدہ حالات ہیں، ''پانی کی تقسیم کا نظام تقریباً موجود نہیں ہے۔
‘‘ ماحولیاتی تبدیلیاں اور ڈینگی کا پھیلاؤصاف پانی کی کمی ایک دیرینہ مسئلہ ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی اسے مزید بدتر کر رہی ہے۔ سرکاری سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتا ہوا سمندری پانی بنگلہ دیش کے نشیبی علاقوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جبکہ طاقتور طوفان سمندری پانی کو اندرون ملک لے جا رہے ہیں، جس سے کنویں اور جھیلوں کا پانی کھارا ہو رہا ہے۔
غیر متوقع بارشوں نے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے، کیونکہ لوگ، جب بھی ممکن ہو، بارش کا پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔آئی ای ڈی سی آر کے مشیر اور صحت عامہ کے ماہر مشتاق حسین کہتے ہیں کہ پانی کے یہ ذخیرہ کرنے والے برتن مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ ہیں، ''ہمیں کہیں بھی پانی جمع ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ بنیادی اصول ہونا چاہیے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''زیادہ گرمی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے خطرہ بڑھ رہا ہے، جو مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش میں 1960 کی دہائی سے ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن سن 2000 میں یہ وباء شدت اختیار کر گئی۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈینگی اور دیگر مچھروں سے پھیلنے والے وائرس تیزی سے اور دور تک پھیل رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کی نصف آبادی اب ڈینگی کے خطرے میں ہے، جس کے ہر سال 100 سے 400 ملین کیس سامنے آتے ہیں۔اپنی بیوی کے غم میں ڈوبے راجن کو ڈر ہے کہ مزید اموات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے مقامی حکام پر ڈینگی کی روک تھام میں ناکامی کا الزام لگایا، ''ڈینگی نے میری بیوی کو چھین لیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے اور قطار میں ہیں… لیکن میں صفائی کی کافی سرگرمیاں نہیں دیکھ رہا۔‘‘
ادارت: افسر اعوان