پاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا سکی ،رینکنگ جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 29 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)دنیا کی بہترین جامعات کی درجہ بند کرنے والے ادارے کیو ایس کی 2026 کی درجہ بندی جاری کردی گئی ہے، جس میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہیں سکیں۔
کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2026 کے مطابق اس درجہ بندی میں دنیا کی سرفہرست 1500 جامعات کو شامل کیا گیا ہے، جو دنیا بھر کے 100 مختلف مقامات پر قائم ہیں۔اعداد وشمار میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 500 جامعات کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے، جن میں ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی کی درجہ بندی میں 120 سے زائد درجہ بہتری آئی ہے، جو سب سے بہتری کارکردگی ہے۔کیو ایس رینکنگ کے مطابق درجہ بندی 2026 میں پاکستان کی 18 جامعات کو عالمی سطح کے 1500 اعلی اداروں میں شامل کیا گیا تاہم پاکستان کی ایک بھی جامعہ دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔
پاکستان کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والی جامعات میں وفاقی دارالحکومت میں قائم قائد اعظم یونیورسٹی ہے جو 354 اور نسٹ 371 نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔جامعہ کراچی 1001 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ سندھ کی کوئی اور جامعہ 1500 جامعات میں بھی جگہ نہیں بناسکی۔اسی طرح پنجاب یونیورسٹی 542، لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنس 555 نمبر پر، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد 654 ویں نمبر میں شامل ہے، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد 664، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجنئیرنگ اینڈ اپلائڈ سائنز 721 نمبر پرہے۔
پاکستان کی دیگر جامعات میں یو ای ٹی لاہور 801، پشاور یونیورسٹی 901 اور لاہور یونیورسٹی کا 951 نمبر ہے، بہاالدین زکریا یونیورسٹی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی 1201 نمبر اور اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور 1401 درجہ پر رہی۔دنیا کی 10 بہترین جامعات میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا پہلے نمبر پر، امپیریل کالج لندن برطانیہ دوسرے، اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکا تیسرے، یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ چوتھے، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا پانچویں اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چھٹے نمبر پر دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران چند ماہ میں یورینیئم افزودہ کرنے کا آغاز کرسکتا ہے، سربراہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی ایران چند ماہ میں یورینیئم افزودہ کرنے کا آغاز کرسکتا ہے، سربراہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی دوستی ہو تو ایسی، میاں منظور وٹو نے گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دوست کی نماز جنازہ ادا کی، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل اسلام آباد میں 1سال میں 1427ریسٹورنٹس پر 3کروڑ 30لاکھ روپے جرمانہ، رپورٹ جاری اسرائیلی فوج کی غزہ میں بڑے فوجی آپریشن کی تیاری، شمالی علاقوں میں انخلا کے احکامات جاری پیپلز پارٹی کا وفاقی حکومت میں شمولیت کا امکان،اعلی عہدیداروں میں رابطے مخصوص نشستیں ہم سے لی گئیں، عدلیہ کا یہ اقدام سیاہ الفاظ میں لکھا جائے گا، عمر ایوب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان کی میں جگہ کی کوئی

پڑھیں:

شارٹ کٹ کوئی نہیں!

خبروں کا موسم بھی عام موسم کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ آج کل اچھی خبروں کا موسم ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا پچھلے چند مہینوں میں ان بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ گرم جوش اٹھنا بیٹھنا ہے جن سے ملنے کے لیے کبھی ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔

بار بار بتایا جا رہا ہے، وہ دن گئے کہ پاکستان کو معاشی مسائل اور عالمی تنہائی کا سامنا تھا،اب نیا دور ہے، سیکیورٹی معاملات میں بھی ہر چہ بادآباد ہے اور معاشی معاملات میں بھی۔

سیکیورٹی معاملات کے بارے میں بہت کچھ کہااور لکھا جا رہا ہے، تاہم ہمارا فوکس معاشی اقدامات اور مستقبل کے امکانات پر ہے۔

یادش بخیر 11/12 سال پہلے اسلام آباد میں ایک زوردار دھرنا ہوا تھا جس میں ایک نعرہ گونجا تھا: سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ مولانا طاہر القادری نے ریاست بچانے کے لیے جو معاشی خاکہ پیش کیا، اس کی بنیاد پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی معدنی ذخائر تھے۔

بعد میں جب بھی حکومتوں کا، معاشی مسائل سے جی گھبراتا ہے تو معدنی ذخائر کی افراط اور اربوں کھربوں مالیت کی نوید دل کے قرار کا باعث بنتی ہے۔ پی ڈی ایم ون کی حکومت نے اپنے آخری ہفتے میں پاکستان میں نئے معدنی ذخائر کی دریافت اور امکانات کا ایسا خوش کن نقشہ کھینچا کہ بن پیئے سرور والا معاملہ ہو گیا۔

پی ڈی ایم ٹو کی موجودہ حکومت نے بھی تین مرتبہ ان امکانات کو اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے اب قوم کو مزید ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہے اور نہ حکومت کو مزید کچھ تردد کرنے کی ضرورت۔

کھربوں ڈالرز کے وارے نیارے ہوں گے، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے… اللہ اللہ خیر صلا۔ کہاں کا آئی ایم ایف؟ کون سی معاشی مشکل؟ کون سی بیڈ گورننس؟ اتنی معدنی دولت کے ساتھ مستقبل اس قدر تابناک ہو تو ڈر کاہے کا!سچی بات یہ ہے کہ بقول شاعر دل تو یہی چاہتا ہے کہ:

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں

پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو

پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

لیکن پھر بقول فیض… لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ پیش آمدہ معاشی منظر نامہ ان خوابوں میں گم رہنے میں حائل ہو جاتا ہے۔ ملک کا ایک کثیر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں آگیا۔کروڑوں افراد کے گھر بار، مال مویشی، فصلیں اور کاروبار تہ و بالا ہوگئے۔

حکومتوں کی امداد اپنی جگہ لیکن زندگی کی چلتی گاڑی کو ڈی ریل ہونے کے بعد پٹڑی پر ڈالنے اور دوڑنے میں کافی وقت لگے گا۔اس ہفتے ورلڈ بینک نے بتلایا کہ پاکستان میں ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ مزید خط غربت سے نیچے جا گرے ہیں۔

برآمدات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران11فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی ٹریڈ امریکی ٹیرف اور جاری جنگوں کے سبب ہچکولے کھا رہی ہے، ایسے میں برآمدات پر جو تکیہ تھا وہ بھی سرک رہا ہے۔ رواں ہفتے ملک کے ایک معروف ٹیکسٹائل گروپ نے اعلان کیا کہ وہ اپنا اپیرل بزنس بند کر رہے ہیں۔

وجوہات میں کاروباری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ، اچھی کوالٹی کی مقامی کاٹن کی کمی، ناموافق حکومتی پالیسیوں کا بوجھ اور دنیا میں گردن توڑ مقابلہ۔ انڈسٹری ایسوسی ایشنز نے بھی خبردار کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کے شعبے کو مہنگی بجلی، گیس سمیت دیگر پیداواری اخراجات میں اضافے نے بے حال کر دیا ہے۔

دوسری طرف بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں جمع کرائی گئی 50فیصد انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن میں زیرو آمدنی ظاہر کی گئی ہے جب کہ ایف بی آر کے پاس ڈیٹا کے مطابق ان لوگوں کا شاہانہ لائف اسٹائل ہے، لگژری گاڑیاں ہیں، بڑے گھر ہیں ، انٹرنیشنل ٹریولنگ ہے مگر ٹیکس ذمے داری پر انھوں نے ملک کو ٹھینگا دکھایا ہے۔

اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں۔ دکھاوے کے چند نوٹس ووٹس، سخت بیانات کا راگ الاپ… اور بس۔ زیرو آمدنی سے ایکٹو ٹیکس اسٹیٹس مل گیا، کاروبار زندگی کے لیے یہی درکار تھا!

اسی ہفتے ایک رپورٹ کے مطابق قومی ائیر لائن نے 2007 سے 2018 کے درمیان کئی ہزار ٹکٹیں فری جاری کیں جن کی مالیت سکہ رائج الوقت کے مطابق کئی ارب روپے تھی۔ قومی املاک اور وسائل پر اشرافیہ کے تصرف کا یہی وطیرہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بھی جاری و ساری ہے۔

آڈیٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا دو سال کا نقصان 1.4 ٹریلین روپے سے بھی زائد رہا۔ بجلی کے سرکلر ڈیٹ کا 1.2 ٹریلین روپے کا نیا کمرشل قرضہ لے کر کامیابی سے ’’خاتمہ‘‘ کیا گیا ہے۔

ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے اصلاحات اور گڈ گورننس کے نعروں کی اصل حقیقت کیا ہے۔

ایسے میں حکومت خطیر معدنی ذخائر کی دستیابی اور عالمی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو ایک انقلابی معاشی مشتقبل بتلا کر قوم کو بقول شخصے ’’ٹھنڈ‘‘ رکھنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں rare earth elements کے امکانات ہیں اور تھر کا کوئلہ ہے۔

اندازہ ہے کہ صرف ریکوڈیک سے نکلنے والے ذخائر پینسٹھ ارب ڈالر مالیت کے ہیں لیکن کیا ہمارے پاس وہ ادارہ جاتی ڈھانچہ اور تکنیکی صلاحیت موجود ہے جو ان وسائل کو پائیدار ترقی میں بدل سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مائننگ سیکٹر فرسودہ ٹیکنالوجی، کمزور قوانین اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ بڑے منصوبے برسوں عدالتی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔

حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ صرف ریکوڈیک کا تانبا اور سونا یا rare earth minerals کی کان کنی سے قرضے اتر جائیں گے اور لاکھوں نوکریاں پیدا ہو جائیں گی، تو یہ خوش فہمی ہے۔ ترقی اس وقت آتی ہے جب کوئی ملک اپنی معیشت میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع بنائے، برآمدات میں تنوع پیدا کرے، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سب سے بڑھ کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دے۔

جاپان، سنگاپور، چین اور جنوبی کوریا نے اپنی معیشتیں معدنی وسائل پر نہیں بلکہ انسانی وسائل، تعلیم، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ پر کھڑی کیں۔

دنیا کا سبق یہی ہے کہ وسائل ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور بربادی کا بھی۔ یہ سب کچھ اداروں، پالیسیوں اور حکمرانی کے معیار پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان نے چلی، بوٹسوانا اور آسٹریلیا کی طرح شفاف ادارے، معقول قوانین اورمتنوع معیشت کھڑی کی تو معدنی وسائل ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

لیکن اگر کانگو، نائجیریا اوروینزویلا کی طرح صرف وسائل پر انحصار اور بدانتظامی جاری رہی تو یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونامشکل ہے۔ پاکستان کو معدنی خواب دیکھنے کاحق ہے لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خود سخت محنت، شفاف حکمرانی اور ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہے کیونکہ ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شارٹ کٹ کوئی نہیں!
  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی سے آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی ملی، مریم نواز
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی: مریم نواز
  • پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کو بہترین سیکورٹی پر عالمی اعزاز مِل گیا
  • پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار
  • دنیا کا سب سے زیادہ آبادی کا حامل شہر کون سا ہے؟ حیران کن نام سامنے آگیا
  • بلوچستان اسمبلی : گوادر کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دینے کی قرارداد منظور  
  •   پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں  بہتری ریکارڈ، ٹاپ 100 میں شامل ہو کر 96 ویں نمبر پر آ گیا 
  • ملک کے دو ایئرپورٹس نمایاں کارکردگی پر سرفہرست، پی اے اے آڈٹ رپورٹ جاری
  • ٹی 20 رینکنگ: صائم ایوب نے ہاردیک پانڈیا سے پہلی پوزیشن چھین لی