بنگلا دیش اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اس طرح متحد و یک جان تھے اور اسلامی عصبیت اس قدر زوروں پر تھی کہ بہت سے زمینی حقائق پس منظر میں چلے گئے تھے اور کوئی ان پر غور کرنے کو بھی تیار نہ تھا۔ مثلاً 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے نمائندہ اجتماع میں جو قرار داد منظور ہوئی اس میں دو اسلامی ریاستوں کے قیام کی گنجائش موجود تھی۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس پر غور کیا جاتا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا اور مشرقی و مغربی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ہی پاکستان بنانے پر اصرار کیا گیا۔ چنانچہ ایک پاکستان بن تو گیا لیکن تادیر قائم نہ رہ سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو مشرقی اور جنوبی اور پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے۔ جونہی یہ رشتہ کمزور ہوا، دونوں حصوں کو یکجا رکھنا دشوار ہوجائے گا۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ سید مودودی نے ظاہر کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں موجود سیکولر اور لبرل عناصر نے اسلام کے رشتے کو کمزور تر کرنے کی پوری کوشش کی اور اس کے مقابلے میں تسلی، لسانی اور علاقائی عصبیتوں کو فروغ دیا گیا۔ قائداعظم ڈھاکا میں یہ اعلان کر آئے تھے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی اس میں شعبہ نہیں کہ اردو نے تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کو متحد کرنے میں بنیادی کردارا دا کیا تھا لیکن اب حالات کا تقاضا کچھ اور تھا پورے مشرقی پاکستان کی زبان بنگلا تھی جو اپنے مضبوط ثقافتی پس منظر کے سبب عوام میں بہت محبوب تھی اور بنگالی اسے بولتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاتا تا کہ پاکستان کے دونوں حصوں میں لسانی توازن قائم رہتا اور کوئی بدمزگی پیدا نہ ہوتی۔ یہ کام جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہوا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور لسانی عصبیت کا زہر چاروں طرف پھیل چکا تھا۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مشرقی پاکستان عوام کے لیے یہ خاص طور پر نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ وہ مزاجاً جمہوریت پسند تھے اور جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت نے انہیں یہ احساس دلایا تھا کہ مغربی پاکستان ان پر براہ راست حکمرانی کررہا ہے اور فوجی حکمران انہیں اپنا محکوم سمجھتے ہیں۔ اسی زمانے میں شیخ مجیب الرحمن ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی آزادی و خود مختاری کے لیے مشہورِ زمانہ چھے نکات پیش کیے۔ تاہم خرم مراد کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بنگالی عوام کو بار بار یہ یقین دلا رہے تھے کہ چھے نکات سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں، پاکستان بھی قائم رہے گا اور چھے نکات پر بھی عملدرآمد ہوگا۔ واضح رہے کہ اس وقت تک جنرل ایوب کا دھڑن تختہ ہوگیا تھا اور نئے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قابض ہو کر ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان کا پلہ آبادی کے اعتبار سے بھاری تھا۔ چنانچہ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قطعی اکثریت حاصل کرلی جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئی۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا تو یہی تھا کہ پاکستان کا اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جاتا اور بھٹو اپوزیشن میں بیٹھتے لیکن وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ شیخ مجیب انہیں بھی اقتدار میں شریک کریں۔ جب بات نہ بنی تو بھٹو نے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگادیا یعنی مغربی پاکستان میں ہم اقتدار سنبھالیں گے اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اپنی حکومت قائم کرلیں۔ یہ کام سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے پُرامن انداز میں ہوسکتا تھا اور ملک تاریخ کی بدترین خونریزی اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے المناک ترین سانحہ سے بچ سکتا تھا۔ لیکن حالات نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت ابتدا ہی سے بنگلا دیش کے قیام کی منصوبہ بندی میں شریک تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے اس کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس میں پرامن سیاسی ڈائیلاگ کی گنجائش ہی نہ تھی۔ وہ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج سے سرنڈر کروانا چاہتی تھی، دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنا چاہتی تھی اور اسلام و جمہوریت کے حامی عناصر کا صفایا کرکے بنگلا دیش کو اپنی ایک طفیلی ریاست بنانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے ’’را‘‘ نے شیخ مجید کو پوری طرح اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ چنانچہ ’’را‘‘ نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ سارے کام کیے۔ پاکستان کی کم ظرف اور احمق قیادت نے بھی اپنی حرکتوں سے اس کی سہولت کاری کی۔ تاہم حالات کبھی کسی کے قابو میں نہیں رہتے اور قدرت ہر موڑ کا توڑ نکالتی رہتی ہے۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب کی حد سے بڑھی ہوئی بھارت نوازی کے خلاف شدید ری ایکشن بنگلا دیشی فوج نے ظاہر کیا۔ اس نے شیخ مجیب اور اس کی پوری فیملی کو قتل کردیا اور جنرل ضیا الرحمن نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔ شیخ حسینہ واجد بیرون ملک تھیں اس لیے زندہ بچ گئیں۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک بنگلا دیش فوجی حکومتوں کی گرفت میں رہا۔ جنرل ارشاد نے جنرل ضیا الرحمن کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کرلی لیکن سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعت اسلامی بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی اور شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ شامل تھی جنرل ارشاد کی حکومت کو زیادہ عرصہ چلنے نہ دیا اور اسے عام انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔ انتخابات ہوئے تو بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی کو اکثریت حاصل ہوئی اس نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور نہایت کامیابی سے حکومت چلائی۔ جماعت اسلامی کے وزرا کی کارکردگی کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ تاہم اگلے تاہم اگلے انتخابات میں لوگوں نے حسینہ واجد کو بھی ایک موقع دینا مناسب سمجھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اسی موقع کی تاک میں تھی اس نے فوراً حسینہ واجد کا گھیرائو کرلیا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر وہ دائمی اقتدار چاہتی ہے تو اسے باقی تمام معاملات بھارت کے سپرد کرنا ہوں گے۔ حسینہ واجد کو اقتدار کے سوا اور کیا چاہیے تھا وہ فوراً اس پر آمادہ ہوگئی۔ چنانچہ پورے عدالتی اور بیورو کریسی نظام پر ’’را‘‘ نے اپنی گرفت مضبوط کرلی اس نے اسلام، جمہوریت اور قانون کی عملداری کی حمایت کرنے والے عناصر کا صفایا کرنے کے لیے نام نہاد وار کرائم ٹریبونل کے قیام کا ڈراما رچایا جس کے تحت بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جماعت اسلامی اس میں سرفہرست تھی۔ اس کے تمام قائدین کو کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر وار کرائم ٹریبونل کی الٹی چھری سے ذبح کردیا گیا، پوری دنیا میں اس ٹریبونل کا تمسخر اڑایا گیا۔ برطانوی عدالت عظمیٰ نے اسے انصاف کی نسل کشی قرار دیا لیکن بھارت حسینہ واجد کی آڑ میں جو کرنا چاہتا تھا کر گزرا تھا۔
حسینہ واجد کو انتخابات میں بار بار بتایا جاتا رہا اس کا دور حکومت بنگلا دیشی عوام کے لیے ایک ایسا ڈرائونا خواب بن گیا جس کی تعبیر نہایت خوفناک نظر آرہی تھی۔ آخر قدرت نے گزشتہ سال اگست میں طلبہ کے ذریعے اس بھیانک کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ بے شک اس جدوجہد میں طلبہ کو اپنا نہایت قیمتی خون دینا پرا اس کے نتیجے میں حسینہ واجد کی شرمناک آمریت سے نجات مل گئی۔ لوگوں نے آزاد ہو کر اس آمریت کے تمام آثار مٹا دیے۔ عدالتیں آزاد ہوگئیں اور حق و انصاف کے مطابق فیصلے کرنے لگیں۔ بنگلا دیشی عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی پر پابندی کالعدم قرار دے دی۔ سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کی رجسٹریشن بحال کردی اور اسے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو بھی باعزت بری کردیا جبکہ نام نہاد وار کرائم ٹریبونل نے انہیں سزائے موت سنائی تھی۔ جماعت اسلامی کی ان کامیابیوں کے پیچھے اس کی عظیم استقامت اور شہادتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اسلام، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔ یقینا وہ اس بات کی مستحق ہے کہ بنگلا دیشی عوام اس پر اعتماد کریں اور انتخابات کے ذریعے ملک کے معاملات اس کے ہاتھ میں دیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنگلا دیش اپنی اصل کی طرف پلٹ رہا ہے پاکستان اس کے خون میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تجارت میں اضافہ ہورہا ہے دو طرفہ کمیشن بن رہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ دونوں ملک مستقبل قریب میں ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن سے وابستہ ہو کر تحریک پاکستان کی لاج رکھ لیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان میں عام انتخابات جماعت اسلامی پاکستان کی پاکستان کے بنگلا دیشی حسینہ واجد جنرل ایوب بنگلا دیش کے قیام رہا ہے کے لیے اور اس تھا کہ کو بھی
پڑھیں:
امریکا سمیت دنیا بھر میں پاکستانی اپنی آزادی کی حفاظت کیلیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستانی سفیر
واشنگٹن:امریکا میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں پاکستانی اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
یوم آزادی کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ 14 اگست 2025ء کے جشن آزادی کے موقع پر میں پاکستان ، امریکا اور دنیا کے طول و عرض میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کو خلوص دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ جشن آزادی تجدید عہد اور آزادی کا دن ہ، لیکن اس مرتبہ 14 اگست اس معرکہ حق کے 3 ماہ بعد آیا ہے جس میں ہم نے نہ صرف اپنی آزادی کی تجدید کی بلکہ پوری دنیا نے اس کی تائید بھی کی۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ ہم نے ثابت کردیا کہ پاکستان اور دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے پاکستانی اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہماری بری، بحری اور فضائی افواج نے جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور جو فتح حاصل کی اس میں پوری قوم ان کے شانہ بشانہ ہے اور اپنے کسی بھی اختلاف سے بالاتر ہو کر اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت آج بھی اور آنے والے کل میں بھی تیار ہے اور تیار رہے گی۔
پاکستان میں اور دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں کے لیے جشن آزادی ایک انتہائی خوشی کا موقع ہے اور آج جب ہم 79 واں یوم آزادی منا رہے ہیں ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ معرکہ حق میں جو فتح ہم نے حاصل کی ہے، بنیان المرصوص آپریشن کے نتیجے میں، وہ ایک ابتدا تھی جو فلسفہ اور جو تصور بنیان المرصوص سے وابستہ ہے، اس کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوگی جب ہم اپنے قائد کے اس فرمان کی تکمیل نہ کر سکیں اور اس مقام پر پاکستان کو نہ پہنچا دیں جس کی پیش بندی کے طور پر انہوں نے کہا تھا کہ There is no power on earth that can undo Pakistan ۔ اور یہ صرف تبھی ممکن ہوگا جب ہم اپنی یکجہتی کو قائم رکھیں، اپنے اتحاد کو برقرار رکھیں، ایک نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور اس بات پر ایمان رکھیں کہ واقعی جب ہم معاشی طور پر ناقابل تسخیر ہو جائیں گے تو بنیان ا المرصوص کا اصل مقصد پورا ہو جائے گا اور ہمارا دفاع اور پاکستان کی سالمیت اور پاکستان کا وقار ناقابل تسخیر ہو جائے گا ۔
سفیر پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں سے جو امریکا کے طول و عرض میں آباد ہیں، میری گزارش ہے کہ آپ امریکا اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے۔ بنیان المرصوس کی فتح کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ جس طرح باقی دنیا میں ہمارے وقار میں اضافہ ہوا ہے ، ہماری پوزیشن بہتر ہوئی ہے اسی طرح پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی ایک نیا اور خوشگوار ترین موڑ لیا ہے اور لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل خوش آئند ہے لیکن ہمیں دونوں ملکوں کے تعلقات کی بقا اور بہتری کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں میں آپ سب کے تعاون کے لیے استدعابھی کرتا ہوں اور مشکور بھی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاک امریکا دو طرفہ تعلقات اور خاص کر معاشی تعلقات علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت ہوں گے۔ آئیے ہم سب مل کر اس کے لیے کام کریں۔ lets team up for Pakistan ۔ پاکستان زندہ باد ۔ پاک امریکا دوستی پائندہ باد۔