Jasarat News:
2025-11-19@01:29:28 GMT

بنگلا دیش اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اس طرح متحد و یک جان تھے اور اسلامی عصبیت اس قدر زوروں پر تھی کہ بہت سے زمینی حقائق پس منظر میں چلے گئے تھے اور کوئی ان پر غور کرنے کو بھی تیار نہ تھا۔ مثلاً 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے نمائندہ اجتماع میں جو قرار داد منظور ہوئی اس میں دو اسلامی ریاستوں کے قیام کی گنجائش موجود تھی۔ حالات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس پر غور کیا جاتا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا اور مشرقی و مغربی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ہی پاکستان بنانے پر اصرار کیا گیا۔ چنانچہ ایک پاکستان بن تو گیا لیکن تادیر قائم نہ رہ سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ابتدا ہی میں کہہ دیا تھا کہ صرف اور صرف اسلام ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو مشرقی اور جنوبی اور پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے۔ جونہی یہ رشتہ کمزور ہوا، دونوں حصوں کو یکجا رکھنا دشوار ہوجائے گا۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ سید مودودی نے ظاہر کیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں موجود سیکولر اور لبرل عناصر نے اسلام کے رشتے کو کمزور تر کرنے کی پوری کوشش کی اور اس کے مقابلے میں تسلی، لسانی اور علاقائی عصبیتوں کو فروغ دیا گیا۔ قائداعظم ڈھاکا میں یہ اعلان کر آئے تھے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی اس میں شعبہ نہیں کہ اردو نے تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کو متحد کرنے میں بنیادی کردارا دا کیا تھا لیکن اب حالات کا تقاضا کچھ اور تھا پورے مشرقی پاکستان کی زبان بنگلا تھی جو اپنے مضبوط ثقافتی پس منظر کے سبب عوام میں بہت محبوب تھی اور بنگالی اسے بولتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاتا تا کہ پاکستان کے دونوں حصوں میں لسانی توازن قائم رہتا اور کوئی بدمزگی پیدا نہ ہوتی۔ یہ کام جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہوا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور لسانی عصبیت کا زہر چاروں طرف پھیل چکا تھا۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مشرقی پاکستان عوام کے لیے یہ خاص طور پر نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ وہ مزاجاً جمہوریت پسند تھے اور جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت نے انہیں یہ احساس دلایا تھا کہ مغربی پاکستان ان پر براہ راست حکمرانی کررہا ہے اور فوجی حکمران انہیں اپنا محکوم سمجھتے ہیں۔ اسی زمانے میں شیخ مجیب الرحمن ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی آزادی و خود مختاری کے لیے مشہورِ زمانہ چھے نکات پیش کیے۔ تاہم خرم مراد کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بنگالی عوام کو بار بار یہ یقین دلا رہے تھے کہ چھے نکات سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں، پاکستان بھی قائم رہے گا اور چھے نکات پر بھی عملدرآمد ہوگا۔ واضح رہے کہ اس وقت تک جنرل ایوب کا دھڑن تختہ ہوگیا تھا اور نئے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قابض ہو کر ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان کا پلہ آبادی کے اعتبار سے بھاری تھا۔ چنانچہ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قطعی اکثریت حاصل کرلی جبکہ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئی۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا تو یہی تھا کہ پاکستان کا اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جاتا اور بھٹو اپوزیشن میں بیٹھتے لیکن وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ شیخ مجیب انہیں بھی اقتدار میں شریک کریں۔ جب بات نہ بنی تو بھٹو نے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگادیا یعنی مغربی پاکستان میں ہم اقتدار سنبھالیں گے اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اپنی حکومت قائم کرلیں۔ یہ کام سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے پُرامن انداز میں ہوسکتا تھا اور ملک تاریخ کی بدترین خونریزی اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے المناک ترین سانحہ سے بچ سکتا تھا۔ لیکن حالات نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت ابتدا ہی سے بنگلا دیش کے قیام کی منصوبہ بندی میں شریک تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے اس کا جو ڈیزائن تیار کیا تھا اس میں پرامن سیاسی ڈائیلاگ کی گنجائش ہی نہ تھی۔ وہ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج سے سرنڈر کروانا چاہتی تھی، دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنا چاہتی تھی اور اسلام و جمہوریت کے حامی عناصر کا صفایا کرکے بنگلا دیش کو اپنی ایک طفیلی ریاست بنانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے ’’را‘‘ نے شیخ مجید کو پوری طرح اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ چنانچہ ’’را‘‘ نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ سارے کام کیے۔ پاکستان کی کم ظرف اور احمق قیادت نے بھی اپنی حرکتوں سے اس کی سہولت کاری کی۔ تاہم حالات کبھی کسی کے قابو میں نہیں رہتے اور قدرت ہر موڑ کا توڑ نکالتی رہتی ہے۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب کی حد سے بڑھی ہوئی بھارت نوازی کے خلاف شدید ری ایکشن بنگلا دیشی فوج نے ظاہر کیا۔ اس نے شیخ مجیب اور اس کی پوری فیملی کو قتل کردیا اور جنرل ضیا الرحمن نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔ شیخ حسینہ واجد بیرون ملک تھیں اس لیے زندہ بچ گئیں۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک بنگلا دیش فوجی حکومتوں کی گرفت میں رہا۔ جنرل ارشاد نے جنرل ضیا الرحمن کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کرلی لیکن سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعت اسلامی بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی اور شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ شامل تھی جنرل ارشاد کی حکومت کو زیادہ عرصہ چلنے نہ دیا اور اسے عام انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔ انتخابات ہوئے تو بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی کو اکثریت حاصل ہوئی اس نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور نہایت کامیابی سے حکومت چلائی۔ جماعت اسلامی کے وزرا کی کارکردگی کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ تاہم اگلے تاہم اگلے انتخابات میں لوگوں نے حسینہ واجد کو بھی ایک موقع دینا مناسب سمجھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اسی موقع کی تاک میں تھی اس نے فوراً حسینہ واجد کا گھیرائو کرلیا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر وہ دائمی اقتدار چاہتی ہے تو اسے باقی تمام معاملات بھارت کے سپرد کرنا ہوں گے۔ حسینہ واجد کو اقتدار کے سوا اور کیا چاہیے تھا وہ فوراً اس پر آمادہ ہوگئی۔ چنانچہ پورے عدالتی اور بیورو کریسی نظام پر ’’را‘‘ نے اپنی گرفت مضبوط کرلی اس نے اسلام، جمہوریت اور قانون کی عملداری کی حمایت کرنے والے عناصر کا صفایا کرنے کے لیے نام نہاد وار کرائم ٹریبونل کے قیام کا ڈراما رچایا جس کے تحت بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جماعت اسلامی اس میں سرفہرست تھی۔ اس کے تمام قائدین کو کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر وار کرائم ٹریبونل کی الٹی چھری سے ذبح کردیا گیا، پوری دنیا میں اس ٹریبونل کا تمسخر اڑایا گیا۔ برطانوی عدالت عظمیٰ نے اسے انصاف کی نسل کشی قرار دیا لیکن بھارت حسینہ واجد کی آڑ میں جو کرنا چاہتا تھا کر گزرا تھا۔
حسینہ واجد کو انتخابات میں بار بار بتایا جاتا رہا اس کا دور حکومت بنگلا دیشی عوام کے لیے ایک ایسا ڈرائونا خواب بن گیا جس کی تعبیر نہایت خوفناک نظر آرہی تھی۔ آخر قدرت نے گزشتہ سال اگست میں طلبہ کے ذریعے اس بھیانک کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ بے شک اس جدوجہد میں طلبہ کو اپنا نہایت قیمتی خون دینا پرا اس کے نتیجے میں حسینہ واجد کی شرمناک آمریت سے نجات مل گئی۔ لوگوں نے آزاد ہو کر اس آمریت کے تمام آثار مٹا دیے۔ عدالتیں آزاد ہوگئیں اور حق و انصاف کے مطابق فیصلے کرنے لگیں۔ بنگلا دیشی عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی پر پابندی کالعدم قرار دے دی۔ سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کی رجسٹریشن بحال کردی اور اسے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو بھی باعزت بری کردیا جبکہ نام نہاد وار کرائم ٹریبونل نے انہیں سزائے موت سنائی تھی۔ جماعت اسلامی کی ان کامیابیوں کے پیچھے اس کی عظیم استقامت اور شہادتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اسلام، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔ یقینا وہ اس بات کی مستحق ہے کہ بنگلا دیشی عوام اس پر اعتماد کریں اور انتخابات کے ذریعے ملک کے معاملات اس کے ہاتھ میں دیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنگلا دیش اپنی اصل کی طرف پلٹ رہا ہے پاکستان اس کے خون میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تجارت میں اضافہ ہورہا ہے دو طرفہ کمیشن بن رہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ دونوں ملک مستقبل قریب میں ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن سے وابستہ ہو کر تحریک پاکستان کی لاج رکھ لیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان میں عام انتخابات جماعت اسلامی پاکستان کی پاکستان کے بنگلا دیشی حسینہ واجد جنرل ایوب بنگلا دیش کے قیام رہا ہے کے لیے اور اس تھا کہ کو بھی

پڑھیں:

شیخ حسینہ: سزائے موت کا فیصلہ!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251119-03-2
بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی ٹربیونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف دائرمقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔ حسینہ واجد پر قتل پر اکسانا، طاقت استعمال کرنے کا براہ راست حکم دینا، ظلم روکنے میں ناکامی، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ شیخ حسینہ کو عمر قید اور دیگر 3 الزامات میں سزائے موت سنائی گئی۔ ٹربیونل کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمات کا 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ شیخ حسینہ کے خلاف عدالتی فیصلے کے وقت ملک میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور عدالتی فیصلے کے وقت شیخ حسینہ واجد کے گھر کے باہر مظاہرین کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ بنگلادیشی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ لیک فون کال کے مطابق حسینہ واجد نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے قتل کے احکامات دیے، ملزمہ شیخ حسینہ واجد نے طلبہ کے مطالبات سننے کے بجائے فسادات کو ہوا دی، ملزمہ نے طلبہ کی تحریک کو طاقت سے دبانے کے لیے توہین آمیز اقدامات کیے۔ شیخ حسینہ واجد کو 6 لوگوں کو جلانے کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے بنگلادیش کے سابق وزیر داخلہ اسد الزماں کمال کو بھی سزائے موت کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں کمال ابھی تک مفرور ہیں، پیشی کے لیے بھیجے گئے متعدد نوٹس کے باوجود دونوں ملزمان کا مفرور ہونا ان کے جرم کا اعتراف ہے، المامون واحد ملزم ہے جو عدالت میں موجود تھے، جولائی میں سماعت کے دوران انہوں نے اعتراف جرم کیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ حفاظتی اور تعزیری اقدامات کرنے میں ناکام رہیں، ملزمہ شیخ حسینہ نے الزام نمبر 2 کے تحت ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دیکر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ فیصلے میں عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوامی لیگ سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتی۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات میں استغاثہ نے سزائے موت کی درخواست کی تھی۔ واضح رہے کہ حسینہ واجد کے خلاف ملک بھر میں رد عمل کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فی صد کوٹا دیے جانے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے جن میں 1400 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کوٹا سسٹم کو ختم کر دیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دی تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بنگلادیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوئے۔ شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ 2024 میں چوتھی مرتبہ بنگلا دیش کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں، ان پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے اور ان کی حکومت نے جماعت اسلامی بنگلادیش پر پابندی بھی لگائی تھی جسے عبوری حکومت میں عدالت نے ختم کر دیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد پرتشدد مظاہروں کے بعد اگست 2024 میں بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ حسینہ واجد کے خلاف سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کا بنگلا دیش کے عوام نے زبردست خیر مقدم کیا ہے، جولائی 2024 کے احتجاج کے دوران جاں بحق اور زخمی ہونے والے مظاہرین کے خاندانوں نے فیصلے پر جشن منایا ہے اور اطمینان کا اظہار کیا ہے، ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور خوشی کا اظہار کیا۔ بنگلا دیش حکومت کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ بنیادی اصول ثابت ہوتا ہے کہ ’’اقتدار سے بالاتر کوئی نہیں‘‘۔ جماعت ِ اسلامی بنگلا دیش کے سیکرٹری جنرل میاں غلام پرور نے شیخ حسینہ واجد کو سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے کا بھرپور خیرمقدم کیا اور اسے خوش آئند اقدام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ 18 کروڑ عوام کی امنگوں کو پورا کرتا ہے اور اس سے ظلم، فاشزم، اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف ایک اہم عدالتی مثال قائم ہوئی ہے۔ پیر کے روز بنگلا دیش حکومت نے بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کردیا کہ وہ برطرف کی گئی سابق وزیر ِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو واپس بھیجے، کیونکہ چند گھنٹے پہلے ہی عدالت نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم پر پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ حسینہ واجد سے متعلق عدالتی فیصلے سے باخبر ہے۔ جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ بھارت بنگلا دیش کے عوام کے مفاد، جیسے امن، جمہوریت، شمولیت اور استحکام کے لیے ہمیشہ تعاون کرے گا، تاہم بھارت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حسینہ واجد کو واپس کرے گا یا نہیں۔ حسینہ واجد کے خلاف سنائے گئے فیصلے بعد ازاں بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے حسینہ واجد کی حوالگی کے مطالبے سے بھارت سخت مشکلات سے کا شکار ہوگیا ہے، بنگلا دیش سے فرار کے بعد حسینہ واجد نے بھارت میں پناہ لی دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی موجود ہے، بھارت کا موقف ہے کہ وہ جمہوریت، امن اور استحکام کی حمایت کرتا ہے اور بنگلا دیش کی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہے تاہم عبوری حکومت کے سرابراہ محمد یونس نے بھارت پر الزام عاید کیا ہے کہ ہ وہ شیخ حسینہ کی حمایت کر رہا ہے۔ اگر بھارت حوالگی سے انکار کرتا ہے تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شعبہ نے کہ حسینہ واجد کے مظالم اور عوام دشمن اقدامات کو بھارت کی آشیر واد حاصل تھی، بنگلا دیشی عوام کا استحصال بھارت کی حمایت اور سرپرستی کے ساتھ کیا گیا۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کے حسینہ واجد نے اپنے دورِ حکومت میں جس طرح مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا بالخصوص جماعت ِ اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں کو جنگی جرائم ٹریبونل قائم کر کے پھانسیاں دیں دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن، اپوزیشن رہنماؤں ور کارکنوں کی بلاجواز گرفتاری، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، سیاسی کارکنوں کو غائب کرنا، آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانا، انتخابی دھاندلی، کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سمیت ایسے متعدد جرائم ہیں جن کا حسینہ واجد نے ارتکاب کیا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ تھا کہ حسینہ واجد نے جماعت ِ اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے ظلم تشدد، اور جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا، حتیٰ کہ جماعت اسلامی پر پابندی عاید کی، اس صورتحال میں جو کچھ ہورہا ہے یہ ایک فطری مکافاتِ عمل ہے جس سے مفر ممکن نہیں، حسینہ واجد کے خلاف آنے والا یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ کا اہم سنگ میل ہے بلکہ ان عناصر کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو عوامی احساسات و جذبات کے برخلاف آئین، قانون اور انصاف کی دھجیاں بکھیر کر عوام کے سروں پر مسلط رہنے کے آرزو مند ہیں۔ بنگلا دیش کے سیاسی افق پر جو کرنیں ابھریں ہیں، امید ہے یہ بنگلا دیش کے عوام کے لیے یہ ایک نئی صبح کا پیغامبر ثابت ہوں گی۔

اداریہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • شیخ حسینہ کی سزائے موت کا فیصلہ؛ بھارت کیا کرے گا؟
  • شیخ حسینہ: سزائے موت کا فیصلہ!
  • بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
  • ٹیکنالوجی کمپنی وائپر نے اپنی اسمبلنگ آپریشنز کو لاہور تک توسیع دیدی
  • پاکستان نے بنگلہ دیش کو آخری ہاکی میچ میں بھی شکست دے کر کلین سوئپ مکمل کر لیا
  • بنگلا دیش کو آخری ہاکی میچ میں بھی شکست، پاکستان کا کلین سوئپ
  • رونا لیلیٰ کی آواز میں دما دم مست قلندر کوک اسٹوڈیو بنگلا پر ریلیز
  • فواد خان کا پاکستان آئیڈل میں جج بننے پر ناقدین کو دلچسپ جواب
  • ٹرمپ کا جیفری ایپسٹین سے متعلق فائلوں کے اجراء کیلئے اپنی جماعت سے ووٹ دینے کا مطالبہ
  • بنگلا دیش اور پاکستان کا مسلمان ایک قوت ہے‘فضل الرحمن