سانحہ سوات وفاقی اور صوبائی دونوں حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے، سنی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سانحہ سوات انسانیت کو شرم سے پانی پانی کر دینے والا واقعہ ہے۔سانحہ سوات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان سنی تحریک کے چیئرمین انجینئر محمد ثروت اعجاز قادری مرکزی صدر پاکستان سنی تحریک صاحبزادہ علامہ بلال عباس قادری اور مرکزی سیکرٹری جنرل صاحبزادہ علامہ بلال سلیم قادری نے اپنے جاری بیان میں کیا۔ثروت اعجاز قادری کا کہنا تھا کہ سانحہ سوات وفاقی اور صوبائی دونوں حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے۔اسلامی فلاحی ریاست میں اس طرح کے واقعات کا ہونا سوالیہ نشان ہے۔سانحہ سوات میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔حکومت اور متعلقہ اداروں کو کوئی خبر نہیں ہوئی۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو انصاف فراہم کرے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سانحہ سوات
پڑھیں:
دریائے سوات سانحہ کے بعد تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بند کر دیے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سوات میں ایک بار پھر طغیانی اور سیلابی ریلوں نے قیامت ڈھا دی۔ دریائے سوات میں اچانک پانی کی سطح بلند ہونے سے درجنوں افراد پانی میں بہہ گئے، جن میں سے اب تک 8 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جبکہ 10 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت نے واقعے کی انکوائری کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور سیاحتی مقامات کے گرد تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 75 افراد سیلابی ریلے میں پھنسے، جن میں سے 58 افراد کو ریسکیو اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بحفاظت نکال لیا۔ ریسکیو آپریشن میں 105 سے زائد اہلکار حصہ لے رہے ہیں لیکن تیز بہاؤ اور خطرناک صورتحال کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات درپیش ہیں۔
صبح ساڑھے 8 بجے بائی پاس پر ایک ہوٹل کے قریب 18 افراد اچانک سیلابی ریلے کی زد میں آئے، جہاں سے اب تک 6 لاشیں نکالی گئی ہیں اور 3 افراد کو زندہ بچایا جا چکا ہے۔ دیگر لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے ملاکنڈ تک سرچ آپریشن جاری ہے۔ جاں بحق افراد کا تعلق ڈسکہ، سیالکوٹ اور مردان سے بتایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ انگرو ڈھیر، امام ڈھیر اور غالیگے سمیت مختلف مقامات پر متعدد افراد کے ڈوبنے کی اطلاعات ہیں۔ کئی علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے، جب کہ چند لاشیں مزید نکالی گئی ہیں۔
حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دریاؤں میں تفریحی سرگرمیوں پر پہلے ہی پابندی عائد ہے، لیکن عوامی لاپرواہی کے باعث یہ افسوسناک سانحہ پیش آیا۔ آج کے واقعے کے بعد حکومت نے حفاظتی اقدامات مزید سخت کرتے ہوئے آس پاس کے تمام تجارتی اور سیاحتی مقامات کو بند کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ 2022 میں بھی سوات میں اسی طرح کی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے شدید تباہی مچائی تھی، جس میں کئی افراد جاں بحق، درجنوں گھر، دکانیں، ہوٹلز اور مساجد تباہ ہو گئی تھیں۔
این ڈی ایم اے نے پہلے ہی شمالی علاقہ جات میں مون سون بارشوں، جھیلوں کے پھٹنے اور ممکنہ سیلاب کے خطرے سے متعلق وارننگ جاری کر رکھی ہے۔ اس سانحے نے ایک بار پھر قدرتی آفات کے حوالے سے عوامی آگاہی، احتیاط اور حکومتی انتظامات کی ضرورت کو نمایاں کر دیا ہے۔