ویب ڈیسک:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹیرئینز کا عالمی دن جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے ہمارے عالمی عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ 

 وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ 30 جون کا دن جامع طرز حکمرانی کو فروغ دینے، خواتین اور نوجوانوں کی بامعنی نمائندگی کو یقینی بنانے اور قانون سازی کے طریقوں میں تکنیکی جدت کو اپنانے میں پارلیمانوں کے اہم کردار کو واضح کرتا ہے۔ 

دوبارہ ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کی تو  ایران کو سنگین  نتائج  بھگتنا ہوں گے:  ڈونلڈ ٹرمپ   

 انھوں نے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ ہمارے جمہوری نظام میں مرکزی مقام رکھتی ہے۔ اپنے قانون سازی کے اختیارات اور متحرک قائمہ کمیٹیوں  کے ذریعے، پارلیمنٹ احتساب، شفافیت اور ایگزیکٹو کی نگرانی کو یقینی بناتی ہے۔ 

 پاکستانی آئین،  آرٹیکلز 51 اور 59 کے تحت، خواتین کی نمائندگی، مخصوص نشستوں کے ذریعے کو یقینی بناتا ہے۔ ہماری خواتین پارلیمنٹیرینز بھی قائدانہ عہدوں پر فائز ہوئی ہیں: اس وقت آٹھ خواتین سینیٹرز اور چار خواتین اراکین قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹیوں کی چیئرپرسنز کے طور پر کام کر رہی ہیں، اور جامع  اور بااختیار قیادت کی مثال قائم کر رہی ہیں۔

امریکا کی شمال مشرقی ریاست میں فائر فائٹرز پر فائرنگ، 2 افراد ہلاک 

 پارلیمنٹ جدیدیت پر مبنی قانون سازی کے لیے بھی سرگرم عمل رہی ہے، خاص طور پر صنفی مساوات اور سماجی تحفظ کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمان کا کردار اہم رہا یے۔ 

 مالی سال 2025-26 کے لیے وفاقی بجٹ کی تیاری کے دوران، حکومت نے اتحادی شراکت داروں سے فعال طور پر مشاورت کی اور ان کے تعاون کا خیرمقدم کیا۔ یہ جذبہ صحت مند جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ہمارے ارکان پارلیمنٹ عالمی پارلیمانی سفارت کاری میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ بین الپارلیمانی یونین (IPU) جیسے پلیٹ فارمز کے ساتھ مسلسل اشتراک کے ذریعے، ہماری پارلیمان  نے امن، ترقی اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ کے لئے کام کیا۔

تاجر کے گھر 13 کروڑ کی ڈکیتی، ملزم ٹک ٹاکر بہن بھائی نکلے

  جنوبی ایشیاء میں حالیہ کشیدگی کے بعد، پاکستان کے کثیر الجماعتی پارلیمانی وفد نے سفارتی رسائی کے ذریعے عالمی فورمز پر ہمارے نقطہ نظر کو مؤثر طریقے سے پیش کیا۔ جدید طرز حکمرانی کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم نے پارلیمانی شفافیت اور رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو بھی اپنایا ہے۔ 

 آئیے،  آج کے دن ،  ہم پارلیمانی اداروں کو مضبوط کرنے، جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کی تجدید کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون سازی کے عمل میں شہریوں کی آواز کی صحیح معنوں میں عکاسی ہو۔

آج بھی بارش، ندی نالوں میں طغیانی اور لینڈسلائیڈنگ کا خدشہ

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

مراعات یافتہ طبقے کا پاکستان

پاکستان میں جرائم کی ایسی ہولناک خبریں آتی ہیں جو ہر باشعور اور حساس دل رکھنے والے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔بلوچستان، خیبر پختون خوا، دیہی سندھ اورجنوبی پنجاب کے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی سفاکانہ جرائم تواتر سے ہورہے ہیں، خصوصاً خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ ایسے ایسے بہیمانہ مظالم اور درندگی کی خبریں آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔

پاکستان کا لیگل سسٹم ایسے بھیانک اور بہیمانہ جرائم کے منابع بند کرنے میں مسلسل ناکام چلاآرہا ہے۔ آئین بھی موجود ہے ، قوانین نافذ ہیں، ادارے قائم ہیں، اس کے باوجود ہتھیار بند جھتے ڈبل کیبن ڈالوں اورکروڑوں روپے مالیت کی ایس یو ویز پر بیٹھے دندناتے پھر رہے ہیں ۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بغیر نمبر پلیٹس نان کسمٹزپیڈ گاڑیاں سٹرکوں پر دوڑ رہی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ان صوبوں میں  طاقتور طبقوں اور ان کے حواریوں کا ڈیفیکٹو حق حکمرانی تسلیم کرلیا گیا ہے، یہ منہ زور اور دولت مند طبقہ ریاست پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے نہ ریاست کا قانون تسلیم کرتا ہے لیکن ریاست کی تمام مراعات اور سہولیات حاصل کرتا ہے، ان کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 پاکستان کا یہ بیمار کہنہ نظام کمزوروں کے لیے درندگی اور ظلم سے لبریز ہے لیکن طاقت کے سامنے منمنانے، منت ترلے اور غلامی سے عبارت ہے۔  ثبوت دیکھنا ہو تو ہماری سیاسی قیادت کا طرز عمل ملاحظہ کر لیں‘ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ چونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہے‘ اس لیے باقی تمام طاقتور سٹیک ہولڈرز اس کے سامنے لیٹے نظر آتے ہیں۔سرمایہ داربھی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تگ ودو میں رہتے ہیں، جاگیردار بھی اسی راستے کے مسافر ہیں ، بیوروکریسی بھی سرجھکا کر رہتی ہے اور سیاستدان بھی۔

پاکستان کا نظام جمہوری نہیں بلکہ طاقت، خوف اور رسوخ کا نمایندہ نظام ہے ، جس میں سرداروں، وڈیروں ، قبائلی عمائدین، مذہبی لیڈران ،گدی نشین وڈیرے اور کاروباری طبقات کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں، سرکاری فنڈز حاصل کرتے ہیں اور پھر انھی فنڈز اور سیاسی اثرو رسوخ کے زور پر اپنی سلطنت قائم رکھتے ہیں جہاں کمزور کی کوئی انسانی حیثیت نہیں ہے۔

کمزور طبقے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، وراثت اور شادی جیسے معاملات تک میں بھی اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو یہ ظلم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ جہاں غریب لوگ اپنی مرضی سے سانس بھی لے لیں تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ جب بھی کہیں سے ظلم کی خبر آتی ہے چند روز شور مچتا ہے، سوشل میڈیا پر غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے، اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں، مگر پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ مجرم آزاد پھرتے ہیں اور مظلوم قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں قانون کتابوں میں تو لکھا ہے، لیکن عمل نظر نہیں آتا۔ غیرت کے نام پر قتل صرف قتل نہیں، بلکہ ایک ثقافتی تماشا بن چکا ہے۔ پولیس بظاہر جرائم کو نظرانداز نہیں کرتی لیکن جب ملزم گرفتار ہو جائے تو پہلے مرحلے میں پولیس کی تفتیش ہی ناقص ہوتی ہے، قبائلی و سرداری نظام والے علاقوں میں تو پولیس اور قانون صرف نام کے لیے ہوتا ہے، عینی شاہد ہو بھی تو وہ خوف کے مارے گواہی نہیں دیتا ، یوں ملزمان ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ ضمانت کے بعد یا اس دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے، یوں جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔

پاکستانی پس منظر میں ہمیں قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ بعض دانشور سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، قبائلی و جاگیرداری نظام کمزور ہورہا ہے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے جدید ترین شہروں میں بسنے والے امراء کے بچوں کا رویہ بھی انسانیت نواز نہیں ہے، یہ طبقہ بھی خود نمائی اور نرگسیت کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں اور معصوم بچوں کے خلاف سفاکانہ جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے۔ کمزوروں کا استحصال، جبر اور تشدد کی نئی اور الگ الگ قسمیں متعارف ہورہی ہیں، عورتوں اور بچوں پر بے رحمانہ تشدد، ان کے سفاکانہ قتل نے سماجی صورتحال کو سنگین بنادیا ہے ۔

پاکستان کا نظام اگر مہذب اور منصفانہ ہوتا تو آج ملک میں تعلیم، صحت، ترقی، روزگارکی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ ہمیں پدرسری نظام کی منہ زوری پر قابو پانے کے لیے نئی قانون سازی کرنا ہوگی ، ایسی قانون سازی جو غیرمبہم اور دوٹوک الفاظ پر مشتمل ہو ۔ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو کمزور طبقات کو جینے کا حق دے، مذہب و مسلک کے نام پر تنظیمیں اور جماعتیں بنانے پر پابندی عائد کی جائے اور مسلح گروہ کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور ایسے متشدد گروہوں کی قیادت و کارکنان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ پورے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے اور جب تک ہم اسے قومی مسئلہ نہیں مانیں گے، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق چلنے والی ریاست چاہتے ہیں یا چند طاقتور طبقات کے فیصلوں پر چلنے والی سلطنت۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم آئین کو بالا دست مانتے ہیں یا دھونس دھاندلی کے نظام کو۔ پاکستان میں عوام کے مفاد کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہیے نہ کہ مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کو۔

متعلقہ مضامین

  • مراعات یافتہ طبقے کا پاکستان
  • آئین لوگوں کی امنگوں کا مجسمہ ، قانون سے کوئی بالاتر نہیں: چیف جسٹس
  • ثابت قدم رہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، چیف جسٹس کا جشن آزادی پر پیغام
  • ثابت قدم رہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، چیف جسٹس کا جشن آزادی پر پیغام
  • پاکستان اور ترکیہ لازم و ملزوم ہیں،ترک پارلیمانی رہنما علی شاہین کا پاکستان کے یومِ آزادی پر خصوصی پیغام
  • آئین کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا: بیرسٹر گوہر
  • معرکۂ حق یوم آزادی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا وطن عزیز کیلیے تجدیدِ عہد وفا 
  • عالمی اسنوکر چیمپئن محمد آصف کی سیمی فائنل میں انٹری، عالمی گیمز میں پاکستان کا میڈل یقینی ہوگیا
  • نوجوان ہماری قوم کی دھڑکن اور ہمارے مستقبل کے مشعل بردار ہیں، بلاول بھٹو زرداری
  • پاکستان میں امن اور اتحاد: یوم آزادی معرکہ حق پر اقلیتوں کا پیغام