مشہور ٹک ٹاکر جوڑی ایمن اور مجتبیٰ اپنی راہیں جدا کررہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
پاکستانی سوشل میڈیا پر مقبول ٹک ٹاکر جوڑی ایمن زمان اور مجتبیٰ لاکھانی کے درمیان تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں۔ دونوں کے ایک دوسرے کو انسٹاگرام پر اَن فالو کرنے اور مشترکہ تصاویر حذف کرنے کے بعد سے فینز کے درمیان تشویش پھیل گئی ہے۔
ایمن زمان نے فروری 2024 میں اپنے دوست مجتبیٰ لاکھانی سے شاندار نکاح کیا تھا، جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھیں۔
حال ہی میں دونوں کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کی افواہیں اس وقت مزید بڑھ گئیں جب ایمن زمان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے مجتبیٰ کی تمام تصاویر حذف کردیں، جبکہ مجتبیٰ نے ابھی تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس کے علاوہ دونوں نے ایک دوسرے کو انسٹاگرام پر اَن فالو بھی کرلیا ہے۔
فینز نے کمنٹ سیکشن میں دونوں کے دوبارہ اکٹھے ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، دونوں کی جانب سے اب تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اسٹوریز میں شیئر کی گئی مبہم پوسٹس نے صورتحال کو مزید الجھا دیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ جوڑی رواں سال مارچ میں عمرہ ادا کرنے بھی گئی تھی اور اس موقع پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز نے فینز کو خوش کردیا تھا۔ اب فینز کی امید ہے کہ یہ محض ایک عارضی جھگڑا ہو سکتا ہے اور دونوں جلد ہی دوبارہ اکٹھے ہو جائیں گے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
ایک ہی عورت سے شادی کرنے والے دو بھائیوں کو اپنی روایت پر فخر
نئی دہلی (نیوز ڈیسک)بھارتی ریاست ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں نے ایک ہی خاتون سے شادی کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی تنقید کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہیں ‘ہاتی قبیلے’ کی صدیوں پرانی روایت پر فخر ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، ہماچل کے علاقے شیلائی کے ’تھندو خاندان‘ سے تعلق رکھنے والے نیگی بھائیوں نے روایتی ’جوڑی در پارتھا‘ کی رسم کے تحت کنہاٹ گاؤں کی رہنے والی سنیتا چوہان سے شادی کی۔
یہ شادی گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد مختلف حلقوں نے اس پر عمل کرنے پر تنقید کی تھی۔ تاہم اب دونوں بھائیوں نے شادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شادی ’جوڑی در پارتھا‘ کے تحت کی گئی تھی، جو ان کے ذاتی عقائد سے ہٹ کر سماجی اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں پردیپ نیگی نے کہا، “یہ روایت نسلوں سے چلی آ رہی ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر ہم پر تنقید کر رہے ہیں۔”
ان کا کہنا ہے کہ ’جوڑی در پارتھا‘ صرف ہمارے علاقے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اتراکھنڈ کے جونسر باوار علاقے میں بھی رائج ہے، جہاں شادی کے موقع پر دونوں دولہا ایک ہی دلہن سے ہار کا تبادلہ کرتے ہیں۔
پردیپ نیگی کے بھائی کپل نیگی نے کہا کہ شادی رضامندی سے ہوئی تھی، کچھ علاقوں میں ایسی شادیاں زبردستی کی جاتی ہیں۔یہ رشتہ دونوں بھائیوں اور ان کی بیویوں کی رضامندی سے تھا اور ان کے گھر والوں نے بھی اس کی مکمل حمایت کی۔
پردیپ نے کہا کہ میں اپنی روایات اور ثقافت کا دفاع کرتا رہوں گا۔ جو لوگ ہمارے رسم و رواج سے ناواقف ہیں وہ بھی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ ہم سب نے اس شادی پر اتفاق کیا اور ہمارا خاندان اور معاشرہ اس سے خوش ہے۔’
کپل نیگی کاکہناتھاکہ ہم غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے پاس زیادہ زمین یا جائیداد نہیں ہے اور ہمارا شہرت حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم نے میڈیا کی تشہیر کے لیے شادی نہیں کی۔
پردیپ نیگی نے کہا، ‘اس شادی کا واحد مقصد ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کے لیے محبت برقرار رکھنا ہے۔ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہم پر تنقید نہ کریں کیونکہ یہ ہماری زندگی ہے اور ہم اسی میں خوش ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آبائی زمین کی تقسیم کو روکنے کے لیے ہندوستان کے کچھ حصوں میں یہ قدیم رسم صدیوں سے رائج ہے، جو زراعت سے وابستہ پہاڑی خاندانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس روایت میں بڑے بھائی کو عموماً ایسے بچوں کا قانونی باپ تسلیم کیا جاتا ہے۔