آن لائن ویڈیوز کی مدد سے دانتوں کا علاج کرنے والا جعلی ڈینٹسٹ خاندان پکڑا گیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
ایک 22 سالہ چیک شخص اور اس کے والدین نے خود کو ماہر دندان ساز ظاہر کرتے ہوئے متعدد مریضوں پر ہاتھ صاف کیا تاہم 2 سال بعد وہ پکڑے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: کتنے پاکستانیوں کو ایک ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرس کی سہولت میسر ہے؟
چیک جمہوریہ کے ایک چھوٹے شہر ہاولیکو بروز میں اس خاندان نے 2 سال تک دندان سازی کا جعلی کلینک چلایا اور سینکڑوں مریضوں کے دانتوں کے روٹ کینال و فلنگ سمیت پیچیدہ علاج کیے۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس پروفیشنل ڈینٹسٹ کی کوئی تربیت نہیں تھی اور وہ صرف آن لائن ٹیوٹوریلز سے سیکھ کر یہ تمام پیچیدہ عمل انجام دے رہے تھے۔
اس دوران انہوں نے مریضوں سے تقریباً 2 لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی رقم کمائی۔ یہ دوسرے دندان سازوں کی نسبت کم فیس چارج کرتے تھے جس کے باعث لوگ ان کے پاس بڑی تعداد میں آتے تھے۔
نوجوان خود کو دانتوں کا ڈاکٹر کہتا تھا اور اس کی والدہ ہیلتھ سیکٹر میں کام کرتی تھی، اس کے والد پروسٹھیٹک ڈیوائسز تیار کرتے تھے۔ یہ جعلی کلینک پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا اور اب اس خاندان کو مختلف الزامات کا سامنا ہے، جن میں غیر قانونی کاروبار چلانا، منی لانڈرنگ، حملے کی کوشش، منشیات کی اسمگلنگ، اور چوری شامل ہیں۔ اگر یہ مجرم ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں 8 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: ٹوتھ پیسٹ پر موجود مختلف رنگوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
نوجوان خود کو دانتوں کا ڈاکٹر کہتا تھا اور اس کی والدہ ہیلتھ سیکٹر میں کام کرتی تھی، اس کے والد پروسٹھیٹک ڈیوائسز تیار کرتے تھے۔ یہ جعلی کلینک پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا اور اب اس خاندان کو مختلف الزامات کا سامنا ہے، جن میں غیر قانونی کاروبار چلانا، منی لانڈرنگ، حملے کی کوشش، منشیات کی اسمگلنگ، اور چوری شامل ہیں۔ اگر یہ مجرم ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں 8 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
چیک ڈینٹل چیمبر کے صدر رومن اسمکلر نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے ادارے کو ہر سال تقریباً 10 جعلی ڈینٹسٹس کے خلاف رپورٹس موصول ہوتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جعلی دندان ساز جعلی ڈینٹسٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جعلی دندان ساز جعلی ڈینٹسٹ
پڑھیں:
برطانیہ؛ یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والا جہاد الشامی کون تھا ؟
مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے شخص کی شناخت 35 سالہ جہاد الشامی کے نام سے ہوئی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق جہاد الشامی بچپن میں اپنے خاندان کے ہمراہ بطور تارکین وطن آیا تھا اور سنہ 2000 میں برطانوی شہریت حاصل کی۔
جہاد الشامی مانچسٹر کے پریس وِچ علاقے کی لینگلی کریسنٹ نامی ایک پرسکون گلی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتا تھا۔
پولیس نے اس مکان پر چھاپہ مارا اور وہاں سے موبائل، کمپیوٹرز اور کچھ دستاویز تحویل میں لے لیں تاکہ تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکے۔
مانچسٹر پولیس کا کہنا ہے کہ 30 سے 40 سال کے درمیان کی عمر والے دو مردوں اور ایک 60 سالہ خاتون کو دہشت گردی کی کارروائی کی تیاری یا اس میں ملوث ہونے کے شبے میں حراست میں لیا گیا ہے۔
پڑوسیوں نے بتایا کہ جہاد الشامی نے کبھی شدت پسندانہ رویے کا اظہار نہیں کیا۔ وہ اکثر گھر کے باغ میں ورزش کرتا نظر آتا تھا اور کبھی مغربی لباس تو کبھی شامی روایتی کپڑے پہنتا تھا۔
ایک اور پڑوسی نے بتایا کہ وہ ایک عام شخص کی طرح تھا، سب سے بات چیت کرتا تھا اور نہ کبھی کسی سے جھگڑا ہوا۔ اس کے خیالات بھی متشدد نہیں تھے۔
جہاد الشامی کے خاندان کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
اہل خانہ نے کہا کہ یہ حملہ ہمارے لیے شدید صدمے کا باعث ہے۔ ہم اس شرمناک اور بھیانک فعل سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمارے دل متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں اور ہم ان کے لیے صبر و حوصلے کی دعا کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ جہاد الشامی نے جمعرات کی صبح سینیگاگ (یہودی عبات گاہ) کے باہر لوگوں پر گاڑی چڑھائی اور بعد ازاں چاقو سے حملہ کیا۔
اس حملے میں 53 سالہ ایڈرین ڈال بی اور 66 سالہ میلون کراوٹز ہلاک ہوئے جبکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک شخص کو غلطی سے پولیس کی فائرنگ لگنے کا بھی اندیشہ ہے۔
اس حملے کے سات منٹ بعد پولیس نے مشتبہ حملہ آور کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا جس نے ایک جیکٹ پہن رکھی تھی۔
پولیس کو شبہ تھا کہ یہ جیکٹ بارودی مواد سے بھری ہوئی ہے اور شاید ملزم اسے دھماکے سے اُڑانے کے لیے استعمال کرے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ نقلی تھی۔
برطانیہ کی وزیر داخلہ شبانہ محمود نے کہا ہے کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملے کے پیچھے کسی دہشت گرد نیٹ ورک یا تنظیم کا ہاتھ ہے۔
ان کے مزید کہنا تھا کہ جہاد الشامی کا ریکارڈ بھی صاف ہے نہ تو پولیس اور نہ ہی ایم آئی فائیو کے علم میں کوئی منفی بات ہے اور نہ ہی وہ کبھی حکومت کے ’پریونٹ پروگرام‘ میں ریفر کیا گیا تھا۔
تاحال اس حملے کے محرک ک پتا نہیں لگایا جا سکا البتہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت کا اس کا سبب ہوسکتی ہے۔