مائنز اینڈ منرلز بل ہمیں اندھیرے میں رکھ کر پاس کرایا گیا، جے یو آئی رہنما مولانا عبدالواسع
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
جمعیت علمائے اسلام ف کے صوبائی امیر سینیٹرمولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو اندھیرے میں رکھ کر مائنزاینڈ منرل بل پاس کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فضل الرحمان جلد کے پی حکومت کا جنازہ پڑھائیں گے، جے یو آئی کا سانحہ سوات پر وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ
کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا واسع نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو چالاکی کے ذریعے پاس کروایا گیا اور تمام جماعتوں کو اندھیرے میں رکھ کر مائنز اینڈ منرلز بل کی منظوری لے لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سال 2018 اور سال 2024 کے انتخابات کو مسترد کرچکی ہے اورپی ڈی ایم کی جماعتیں حکومت میں ہیں جبکہ اس کے سربراہ اپوزیشن میں ہیں۔
سینیٹرمولانا عبدالواسع نے کہا کہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو جمعیت علماءاسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں واضح مؤقف اختیار کر تے ہوئے قوم کی طرف سے پاک فوج کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 24 کروڑ عوام فوج کے شانہ بشانہ ہیں اور اس کے اگلے دن پاک فوج نے 4 گھنٹوں کے اندر اندر بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب کہ بھارت نے پھر جنگ بندی کی باتیں شروع کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی عوام کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے پاک فوج کی حوصلہ افزائی نہیں کی جبکہ ہم نے اپنے تمام تحفظات کو سائیڈ پر رکھ کر پاک فوج یقین دلایا کہ عوام کا تعاون انہیں حاصل ہے۔
سینیٹرمولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہم حکومت اور اپوزیشن کا حصہ رہے اور عوام کی امیدوں پر اترے ہیں بلوچستان میں سنہ 2002 سے سنہ 2013 تک ہم حکومت میں تھے اس دوران بجٹ کا حجم 85ارب روپے تھا اور 30 سے35 فیصد حصہ ڈویلپمنٹ پر خرچ کیا جا تا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سنہ 2002 میں بلو چستان میں صرف جامعہ بلو چستان تھی پھر سنہ 2002 سے لے کر 2013تک تقریباً 8 جامعات اور14 سے 15 کیڈٹ کالجز تعمیر کروائے گئے لیکن اس کے بعد صوبے میں کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیے: گرینڈ اپوزیشن الائنس: جے یو آئی نے تحریک انصاف کو شرائط بتادیں
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے فارمولے کی بنیاد پر این ایف سی حاصل کیا جس کے بعد بجٹ 600 ارب تک پہنچ گیا، انہوں نے مزید کہا کہ جے یو آئی کی بلوچستان اسمبلی سے 12 سیٹیں چوری کی گئیں لیکن ہم نے پھر عوام کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کیا۔
سینیٹرمولانا عبدالواسع کہا کہ واشک کی پسماند گی ہم نے دیکھی ہے رکن صوبائی اسمبلی میر زابد ریکی نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ہار پہنا کر پارٹی مؤقف کے برعکس سیاسی رویہ اپنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی جماعت ہے جس میں پارٹی ڈسپلن اور مشاورت کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اور کسی بھی رکن کو ذاتی مفاد یا غیر جماعتی رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا رکن بلوچستان اسمبلی میر زابد علی ریکی کی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رکنیت معطل کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: گرینڈ اپوزیشن الائنس: جے یو آئی نے تحریک انصاف کو شرائط بتادیں
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام این ایف سی اور 18 ویں ترمیم کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ بلو چستان میر سر فراز بگٹی کو موقع دے چکے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جے یو آئی مائنز اینڈ منرلز بل مولانا عبدالواسع.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جے یو ا ئی مائنز اینڈ منرلز بل مولانا عبدالواسع انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علمائے اسلام مائنز اینڈ منرلز انہوں نے کہا کہ جے یو ا ئی پاک فوج رکھ کر
پڑھیں:
شاہجہاں نے تاج محل آگرہ میں کیوں تعمیر کرایا؟
مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب اپنی محبوب اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں تاج محل بنانے کا فیصلہ کیا، تو ان کا مقصد صرف ایک مقبرہ تعمیر کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ دنیا کے لیے محبت، فن اور عظمت کا ایک ایسا شاہکار چھوڑنا چاہتے تھے جو رہتی دنیا تک ممتاز محل سے ان کی لازوال محبت کی نشانی بن جائے۔
تاج محل نہ صرف فنِ تعمیر کا ایک بے مثال نمونہ ہے بلکہ دنیا کے سات عجائبات میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس خوبصورت مقام کی زیارت کے لیے بھارت کے شہر آگرہ کا رخ کرتے ہیں۔
تاج محل کی تعمیر اور محنت کی داستان
تاج محل کی تعمیر 1635ء میں شروع ہوئی اور یہ 20 سال کی محنت کے بعد 1653ء میں مکمل ہوا۔ اس عظیم منصوبے میں 20 ہزار سے زائد مزدور، کاریگر، فنکار اور معمار شامل تھے۔ ان کی مہارت اور محنت نے دنیا کے سامنے حسن، ہنر اور محبت کا ایسا امتزاج پیش کیا جو آج تک بے مثال ہے۔
آگرہ کا انتخاب — تین بنیادی وجوہات
شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر کے لیے آگرہ کا انتخاب تین اہم وجوہات کی بنیاد پر کیا۔
شاہجہاں کے دور میں دہلی کے بجائے آگرہ مغل سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ شاہی عدالت، دفاتر اور تمام اہم انتظامی معاملات آگرہ سے چلائے جاتے تھے، اس لیے اس شہر میں یہ عظیم یادگار تعمیر کرنا زیادہ موزوں سمجھا گیا۔
تاج محل کو دریائے جمنا کے کنارے تعمیر کیا گیا، کیونکہ یہاں کی فضا پرسکون تھی اور دریا کے بہاؤ نے عمارت کے حسن کو اور نکھار دیا۔ اس مقام پر نہ صرف منظر خوبصورت تھا بلکہ قدرتی طور پر سیلاب یا زمین کٹاؤ سے بھی عمارت محفوظ رہتی تھی۔
آگرہ کے آس پاس ماربل (سنگِ مرمر) آسانی سے دستیاب تھا، جو تاج محل کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ اس کے علاوہ شہر میں پہلے سے موجود ماہر کاریگر اور فنکار بھی آگرہ کو اس منصوبے کے لیے بہترین انتخاب بناتے تھے۔
تاج محل کی تکمیل کے کچھ عرصے بعد شاہجہاں نے دارالحکومت دہلی منتقل کر دیا، جو آج بھی بھارت کا دارالحکومت ہے۔ تاہم، تاج محل آج بھی آگرہ میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے اور دنیا بھر میں محبت کی ایک علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔