ڈی آئی خان:

گھریلو لڑائی خونریزی میں تبدیل ہو گئی، جس میں ایک بھائی نے اپنے دوسرے بھائی، بھابی اور بھتیجے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

پولیس کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کرک کے علاقے نارہ بانڈہ میں گھریلو تنازع خونریز واقعے میں تبدیل ہو گیا، جہاں ایک شخص نے اندھادھند فائرنگ کر کے اپنے سگے بھائی، بھابی اور کمسن بھتیجے کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا جب کہ پولیس نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کیے اور لاشوں کو ضابطے کی کارروائی کے لیے قریبی اسپتال منتقل کر دیا۔

ایس پی تفتیش کرک اشفاق خان کے مطابق واقعہ خاندانی تنازع کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے تاہم مزید تفتیش جاری ہے اور جلد تمام حقائق سامنے لائے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی

لندن: برطانیہ میں پولیس کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت ہائی پروفائل اور حساس مقدمات میں مشتبہ افراد کی قومیت اور نسلی پس منظر کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کی اجازت دی جا رہی ہے، تاکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

یہ فیصلہ پچھلے سال پیش آنے والے ایک بڑے واقعے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی و سماجی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔

جولائی 2024 میں برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں پیش آئے ایک ہولناک واقعے کے بعد یہ مسئلہ شدت سے سامنے آیا، جب تین کم سن لڑکیوں کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ 

اس واقعے کے بعد آن لائن افواہیں گردش کرنے لگیں کہ حملہ آور ایک کم عمر تارکِ وطن ہے۔ ان جھوٹی خبروں نے عوامی اشتعال کو بھڑکا دیا، نتیجتاً ملک کے مختلف حصوں میں شدید ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے۔

اس واقعے نے حکومت اور پولیس کو تنقید کے نشانے پر لا کھڑا کیا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ پولیس حساس کیسز میں جان بوجھ کر ملزمان کی قومیت یا امیگریشن اسٹیٹس کو چھپاتی ہے تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جا سکے۔ 

گزشتہ ہفتے ریفارم یوکے پارٹی نے ایک اور کیس میں پولیس پر یہی الزام عائد کیا — وسطی انگلینڈ میں ایک 12 سالہ لڑکی کے مبینہ ریپ میں ملوث ملزمان کے بارے میں کہا گیا کہ پولیس نے ان کی امیگریشن حیثیت چھپائی۔ بعد ازاں، مقامی کونسل کے ایک رہنما نے عوامی طور پر دعویٰ کیا کہ ملزمان پناہ گزین ہیں، جس کے بعد ایک بار پھر امیگریشن مخالف احتجاج شروع ہو گیا۔

اس وقت برطانیہ میں پولیس کے لیے یہ اصول موجود ہے کہ وہ صرف اتنی معلومات شیئر کرے جو کسی ملزم کو منصفانہ ٹرائل فراہم کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قومیت اور امیگریشن حیثیت جیسی تفصیلات عام طور پر ظاہر نہیں کی جاتیں۔

تاہم، نیشنل پولیس چیفس کونسل (NPCC) اور کالج آف پولیسنگ کی جانب سے جاری کی گئی نئی ہدایات کے مطابق اب پولیس فورسز کو "ترغیب" دی جائے گی کہ جہاں کسی واقعے سے متعلق جھوٹی یا متضاد معلومات تیزی سے پھیل رہی ہوں، وہاں عوامی مفاد کے تحت نسلی یا قومیتی پس منظر جیسی تفصیلات شیئر کی جائیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قدم ایک طرف شفافیت اور عوامی اعتماد بڑھا سکتا ہے، مگر دوسری جانب خطرہ ہے کہ اس سے نسلی تعصب اور امیگریشن مخالف جذبات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کچھ کارکنان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا غلط استعمال مخصوص برادریوں کو نشانہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جھوٹی خبروں اور افواہوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔


 

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی کے ضلعی امیر مفتی کفایت اللہ فائرنگ میں زخمی، بیٹا اور بیٹی جاںبحق
  •  مالاکنڈ: فائرنگ کے واقعے میں جے یو آئی (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ اور اہلیہ زخمی، بیٹا و بیٹی جاں بحق
  • آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کے قریب زلزلہ، گیارہ ہزار املاک بجلی سے محروم
  • روس  میں 6 شدت کا زلزلہ
  • کراچی: گھر کے اندر فائرنگ کے پراسرار واقعے میں نوعمر لڑکی شدید زخمی
  • حافظ آباد میں زہریلی چیز کھانے سے بچہ ہلاک
  • برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی
  • کراچی: فائرنگ سے باپ بیٹا جاں بحق، بچوں سمیت 5 افراد زخمی
  • سپریم کورٹ1980کے رولز تبدیل، نئے رولز 2025جاری کردیئے گئے
  • کامران ٹیسوری کے مطابق ’بھائی‘ آرہے ہیں، یہ بھائی کون ہیں؟