خیبر میں ’پولیس سہولت مرکز‘ کا افتتاح کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
---فوٹو بشکریہ سوشل میڈیا
خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں ’پولیس سہولت مرکز‘ کا افتتاح کر دیا گیا۔
ضلع خیبر میں پولیس سہولت مرکز کا افتتاح آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے کیا۔
اس موقع پر آئی جی پولیس ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں اس جیسا معیاری سہولت مرکز کہیں بھی نہیں ہے۔
’سہولت مرکز‘ میں عوام کو ایک چھت کے نیچے 18 مختلف سروسز میسر ہوں گی، یہ تمام سروسز آن لائن نادرا سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ منسلک ہیں۔
ضلع خیبر کا ’پولیس سہولت مرکز‘ 100 کیمروں سے منسلک کیا گیا ہے، ان کیمروں کے ذریعے پاک افغان شاہراہ، طورخم سرحدی گزرگاہ سمیت ضلع کے تمام تھانوں اور اہم مقامات کی نگرانی کی جائے گی۔
مرکز کی سہولتوں میں پولیس سے وابستہ مختلف قسم کے کلیئرنس، دستاویزات کی تصدیق، ٹریفک کی مختلف سروسز اور گمشدگی کی رپورٹ کا اندراج شامل ہے۔
سہولت مرکز میں خواتین کے لیے الگ ڈیسک قائم کی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پولیس سہولت مرکز
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کے واحد برن سینٹر میں عملے کا بحران، نرسوں کا کام سیکورٹی گارڈز کرنے لگے
بھرتیوں میں غیر معمولی تاخیر اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث حالات سنگین صورت حال اختیار کرگئے ہیں اور نرسوں کی 60 فیصد کمی پوری کرنے کے لیے سیکیورٹی گارڈز کام کرنے لگے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے واحد برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر پشاور میں عملے کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا ہے جہاں بھرتیوں میں غیر معمولی تاخیر اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث حالات سنگین صورت حال اختیار کرگئے ہیں اور نرسوں کی 60 فیصد کمی پوری کرنے کے لیے سیکیورٹی گارڈز کام کرنے لگے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق برن اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر پشاور میں عملے کی قلت کا سامنا ہے جہاں صرف 40 فیصد نرسنگ اسٹاف موجود ہے جبکہ 60 فیصد سے زائد نرسیں استعفیٰ دے چکی ہیں، جس کے باعث ایمرجنسی، آئی سی یو اور سرجیکل یونٹس کی خدمات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ صوبے کے سب سے اہم ریفرل سینٹر میں انفیکشن کنٹرول کے تمام معیارات پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں، تربیت یافتہ عملے کی عدم موجودگی میں صفائی اور انفیکشن روکنے کے اہم فرائض سیکیورٹی گارڈز اور نچلے درجے کے عملے کے سپرد کر دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جھلسے ہوئے مریضوں میں پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک سینیئر اسٹاف رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "بنیادی حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث انفیکشن کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جو مریضوں کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہے"۔ آئی سی یو صرف کاغذوں میں فعال ہے جبکہ وہاں نہ کوئی مخصوص آئی سی یو میڈیکل افسر ہے اور نہ ہی کوئی ماہر "انٹینسِوسِٹ" ہے، ان آسامیوں کے لیے تحریری امتحانات کئی ماہ قبل ہو چکے ہیں مگر حتمی میرٹ لسٹ تاحال جاری نہیں کی گئی۔