خود انقلاب ، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی کامیابی کا ایک کوڈ بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
خود انقلاب ، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی کامیابی کا ایک کوڈ بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 July, 2025 سب نیوز
بیجنگ :بدعنوانی کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کو حکمرانی کے عمل میں درپیش ایک مشترکہ مسئلہ ہے۔ مغربی سیاسی جماعتیں بدعنوانی سے لڑنے کے لئے سرجری جیسے طریقہ کار پر انحصار کرتی ہیں ،جب کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے “خود انقلاب” کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہ طریقہ کار 100 ملین سے زائد ارکان کی حامل مسلسل 76 سال سے حکمران کرنے والی پارٹی کی کامیابی کا ایک کوڈ بن چکا ہے۔2012 میں جیسے ہی شی جن پھنگ سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے، انہوں نے “آٹھ نکاتی ریگولیشن” کا اعلان کیا، جس میں کفایت شعاری،سرکاری دوروں اور میٹنگ کے انتظامات کو سادہ کرنے سمیت آٹھ پہلوؤں پر ٹھوس ضوابط پیش کیے گئے ۔ اس ریگولیشن نے پارٹی کی انضباطی تعمیر کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔عام طور پر ہر ایک حکومت کا عروج و زوال ہوتا ہے جو ایک تاریخی سائیکل بنتا ہے۔
اس سائیکل سے نکلنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ابتدائی رہنما ماؤ زے دونگ نے پہلا جواب دیا – عوام کی نگرانی۔ پھر سنہ 2021 میں شی جن پھنگ نے دوسرا جواب- خود انقلابی تجویز کیا ۔انہوں نے انسداد بدعنوانی ، ادارہ جاتی اصلاحات ، نظریاتی جدت طرازی اور استعداد کار میں بہتری کی تجاویز پیش کیں۔ عوام کی نگرانی مسائل کو ظاہر کرتی ہے،اور خود انقلاب مسائل کو حل کرتی ہے، اور پھر اسی طریقے سے سی سی پی اپنے اصل مشن یعنی لوگوں کے لئے خوشحال زندگی کی تلاش میں گامزن ہے۔سی سی پی کے خود انقلاب کے دو”جیناتی عوامل”ہیں۔ ایک مارکسی سیاسی جماعت کی حیثیت سے پارٹی شروع سے ہی خود ساختہ جدت طرازی کا سیاسی جین رکھتی ہے۔
اور چین کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب نے سی سی پی کے خود انقلاب کے لیے ایک ثقافتی بنیاد فراہم کی ہے۔سی پی سی ہمیشہ عوام کے وسیع تر مفادات کی نمائندگی کرتی ہے، جو مغرب کی کچھ سیاسی جماعتوں کے بالکل برعکس ہے جو مخصوص مفاداتی گروہوں کی ترجمان ہیں۔ جب سیاسی جماعتوں کی گورننس “سرمائے کی قیادت میں ہونے والے گردشی انتخابات” کے پیراڈائم سے نکل کر “خودانقلاب اور عوام کی نگرانی” کے راستے پر چلی جاتی ہے، تو سیاسی استحکام اور حکمرانی کی کارکردگی کا حصول مکمل طور پر ممکن ہے۔خود انقلاب کے بارے میں سی پی سی کے نظریات اور تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی تہذیب کے تنوع کو کسی ایک ماڈل سے پابند نہیں کیا جانا چاہئے ، اور مختلف ممالک ایک دوسرے کے حکمرانی کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں اور مشترکہ طور پر انسانی سیاسی تہذیب کو اعلی درجے تک پہنچا سکتے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین نے فلپائن کے سابق سینیٹر ٹولنٹینو پر پابندیاں عائد کر دیں برکس گورننس کے سیمینار اور عوامی و ثقافتی تبادلے کے فورم کا برازیل میں انعقادبرکس میکانزم کو تاریخی توسیع دی گئی ہے، چینی نمائندہ نئے مالی سال میں حکومت ٹھوس معاشی اصلاحات کرے، صدر ایف پی سی سی آئی نئے مالی سال کا شان دار آغاز؛ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، نیا سنگ میل عبور معروف بینکر جاوید قریشی پاکستان بزنس کونسل کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر جون میں مہنگائی کی شرح 3سے 4فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، وزارت خزانہ اوگرا نے جولائی کیلئے ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کردی، نوٹیفکیشن جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کمیونسٹ پارٹی ا ف چائنا خود انقلاب
پڑھیں:
محرم کی آنکھ سے دیکھا گیا انقلاب اور فکرِ امام خمینی (رح)
اسلام ٹائمز: محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔ تحریر: آغا زمانی
محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی دلوں میں ایک عجیب سی تڑپ، ایک انقلابی حرارت اور ایک فکری بیداری جاگ اٹھتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس میں عدالت نے ظلم اور حق نے باطل کے خلاف قیام کیا۔ محرم کا ہر لمحہ گواہی دیتا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں حق کو بالآخر فتح نصیب ہوئی ہے اور یہ فتح، تلوار سے نہیں، بلکہ لہو سے حاصل ہوئی ہے۔ امام خمینی (رح) محرم اور عاشورا کو فقط تاریخی واقعات نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک یہ زندہ، متحرک اور ہمیشہ کے لیے جاری رہنے والے انقلاب کا سرچشمہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: "محرم وہ مہینہ ہے، جس میں اسلام کو زندہ کیا گیا۔" واقعۂ کربلا فقط ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک مکتب ہے۔ ایسا مکتب جو ہر دور کے مظلوموں کو طاغوت کے مقابل قیام کا حوصلہ دیتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے عزیزوں، جوان بیٹوں اور اصحاب کی قربانیاں دے کر یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی، طاغوت کی تقویت ہے اور باطل کے سامنے جھکنا انسانیت کی شکست۔
امام خمینی (رح) کے مطابق، عاشورا فقط رونے، ماتم کرنے یا جلوس نکالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک "سیاسی، روحانی اور انقلابی درسگاہ" ہے۔ ان کے بقول: "عاشورا کو زندہ رکھنا، اسلام کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔" یزید کو تختِ خلافت پر بٹھانے والوں کے مفسدانہ عزائم نے اسلام کو نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، لیکن امام حسین علیہ السلام کی قربانی نے نہ صرف ان سازشوں کو ناکام بنایا بلکہ اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رح) محرم کو "فدائیت اور کامیابی کا مہینہ" قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: "ہماری جو کچھ بھی عزت ہے، جو بھی بیداری ہے، وہ محرم اور عاشورا کی مرہونِ منت ہے۔"(کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے ہمیں سکھایا کہ باطل کے خلاف قیام کرنا ہر دور میں واجب ہے۔ عاشورا ایک دائمی پیغام ہے کہ چاہے دشمن کے پاس تخت و تاج ہوں، افواج ہوں یا فریب، اگر تمہارے پاس ایمان، اخلاص اور قربانی کا جذبہ ہے تو تم حق کے پرچم کو سربلند رکھ سکتے ہو۔
محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ: ظالم کے خلاف خاموشی، ظلم کی تائید ہے، قربانی دینا ہی بقاء کا راستہ ہے اور ظلم کی پیشانی پر باطل کی مہر ثبت کرنے کا وقت ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔ سیدالشہداء امام حسین (ع) کی شہادت نے اسلام کے پیغام کو سمیٹ کر تاریخ کے ہر دور کے لیے ایک لافانی منشور بنا دیا۔ وہ صرف ایک مظلوم امام نہیں، بلکہ تمام مظلومینِ عالم کے امام ہیں۔ ان کی قربانی آج بھی فلسطین کے بچوں، کشمیر کے نوجوانوں، یمن کے شہیدوں اور ہر ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے۔ امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کو کربلا کی روشنی میں پروان چڑھایا۔ وہ فرماتے ہیں: "ہماری تحریک، کربلا کی تحریک کا تسلسل ہے۔ اگر عاشورا نہ ہوتا تو نہ اسلامی انقلاب ہوتا، نہ اس کی روح باقی رہتی۔" انقلاب اسلامی ایران، کربلا کے خونی پیغام کا زندہ ثمر ہے۔
اگر 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے ظلم و فساد کے خلاف قیام کرکے حق کی شمع روشن کی، تو 1979ء میں امام خمینی (رح) نے اسی شمع کی روشنی میں طاغوتی حکومت کے محل کو زمین بوس کر دیا۔ کربلا کا پیغام فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک جاری تحریک ہے، جو ہر اس دل میں دھڑکتی ہے، جو ظلم کے خلاف بغاوت کا جذبہ رکھتا ہو۔ امام خمینی (رح) بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: "کربلا کو زندہ رکھیے، کیونکہ کربلا زندہ رہے گی تو اسلام زندہ رہے گا۔" محرم و عاشورا کو زندہ رکھنا فقط مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی ضرورت بھی ہے۔ امام خمینی (رح) نے عاشورا کو ایک سیاسی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ کربلا کی یاد منانا امتِ مسلمہ کے لیے بیداری اور وحدت کا ذریعہ ہے۔ وہ ملتوں کو تلقین کرتے ہیں کہ: "اس محرم کو زندہ رکھو، ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ محرم و صفر ہی کی بدولت ہے۔"
امام خمینی (رح) کے نزدیک مجالسِ امام حسین علیہ السلام فقط نوحہ و گریہ کا اجتماع نہیں بلکہ نوحہ و گریہ کے ساتھ ساتھ عقل و عدل کے لشکر کا ہتھیار بھی ہیں۔ ان مجالس کے ذریعے عوام کو طاغوتی افکار، ظلم، خیانت اور منافقت کے خلاف شعور اور حوصلہ ملتا ہے۔ یہی وہ محفلیں ہیں، جہاں جہالت کے خلاف علم، ظلم کے خلاف عدل اور طاغوت کے مقابل اسلامی فکر پروان چڑھتی ہے۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں: "ان مجالس کو جتنی زیادہ شان و شوکت، اتحاد و اتفاق اور معرفت کے ساتھ منایا جائے، اتنا ہی عاشورہ کے خونی پرچم مظلوم کے انتقام کی نوید لے کر بلند ہوں گے۔" (کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) امام خمینی (رح) نے عزاداری کو امت مسلمہ کے درمیان وحدتِ کلمہ کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، انقلاب اسلامی کی کامیابی بھی انہی مجالس و ماتمی جلوسوں کی مرہونِ منت ہے، جنہوں نے عوام کو طاغوت کے خلاف کھڑا کیا۔ امام فرماتے ہیں: "یہی جلوس، یہی نوحہ خوانی، یہی ماتم، یہی مجالس تبلیغِ دین کے عظیم مراکز ہیں۔"
محرم میں ہونے والی سینہ زنی اور سوگواری، فقط رسم نہ ہو، بلکہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ چاہتے تھے کہ یہ ایک بامقصد عمل بنے۔ ان کے نزدیک: "سینہ زنی کو شعور اور ہدف کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ عاشورا فقط نوحہ و گریہ کا دن نہیں بلکہ ملت مظلوم کی زندگی کا دن ہے۔" امام خمینی (رح) عاشورا کو امت مسلمہ کی حیاتِ نو اور جرأت و شجاعت کے اظہار کا دن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہی وہ دن ہے، جب مظلوم کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو، حق اگر خلوص اور قربانی کے ساتھ اٹھے تو وہ لازماً کامیاب ہوتا ہے۔
محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔