سوات، وفاقی وزیر کا ہوٹل زد میں آنے پر تجاوزات کیخلاف آپریشن روک دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سوات، وفاقی وزیر کا ہوٹل زد میں آنے پر تجاوزات کیخلاف آپریشن روک دیا گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 July, 2025 سب نیوز
سوات (سب نیوز)وفاقی وزیر کا ہوٹل زد میں آنے کے بعد سانحہ سوات کے بعد دریا کے کنارے موجود تجاوزات کے خلاف آپریشن روک دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے کہا کہ وفاقی وزیر کا ہوٹل تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کی زد میں آنے پر آپریشن روکنا پڑا، دریا کنارے تعمیرات کی این او سی دینے والے افسران کی تفصیلات طلب کر لی گئیں۔دریائے سوات کے کنارے بڑے ہوٹلز ، دیگر تعمیرات کی تفصیلات کے پی حکومت نے طلب کرلیں، دریائے سوات کے کنارے سرکاری و نجی عمارتوں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا گیا۔
قبل ازیں وفاقی وزیر و صدر مسلم لیگ (ن)خیبرپختونخوا انجینئر امیر مقام نے سانحہ سوات کے بعد عوام کی قانونی و ملکیتی املاک کو نشانہ بنانے پر صوبائی حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سوات میں تجاوزات کے نام پر آپریشن میں لوگوں کی قانونی اور جائز املاک کو نقصان پہنچانا قابل مذمت ہے، صوبائی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ٹورازم کی تباہی کا بحران کھڑا کر رہی ہے جو نہایت افسوسناک اور شرمناک ہے۔
امیرمقام نے کہا کہ میرے قانونی اور ملکیتی ہوٹل کی بانڈری وال گرانا سیاسی انتقام اور لوگوں کی اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے، میرے ہوٹل کی تمام قانونی دستاویزات، ملکیت ، این او سی اور نقشہ متعلقہ حکام سے منظور شدہ موجود ہے، قانونی چارہ جوئی کرونگا۔ امیرمقام کا کہنا تھا کہ میں حاجی جلات خان سمیت ان تمام لوگوں کیساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں جنکے ساتھ ذیادتی اور ناانصافی ہوئی اور جن کے جائز اور قانونی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور آذربائیجان کے درمیان نوجوانوں کے تعاون کے فروغ کے لیے تاریخی مفاہمتی یادداشت پر دستخط پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان نوجوانوں کے تعاون کے فروغ کے لیے تاریخی مفاہمتی یادداشت پر دستخط چھبیسویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پہلے کیا جائے، جسٹس منصور کا جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے دوران اعتراض جنگ بندی کے بعد بڑی پیشرفت، پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے جسٹس سرفراز اور پشاور ہائیکورٹ کیلئے جسٹس عتیق کا نام منظور پنجاب اسمبلی کے 26 ارکین کی رکنیت ختم کرنے کےلیے قانونی کارروائی شروع جوڈیشل کمیشن کا جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ تعینات کرنے کا فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
سانحہ سوات: غیر قانونی مائننگ، تجاوزات اور ریسکیو میں کوتاہی، کب کیا ہوا؟
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سیلابی ریلے میں 13 سیاحوں کے بہہ جانے کے بعد کوتاہی برتنے پر ڈپٹی کمشنر سمیت 4 افسران کو معطل کرکے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جبکہ واقعے کی ابتدائی رپورٹ میں بے جا تجاوزات مائننگ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی و کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
سوات میں گزشتہ جمعے کی صبح 16 سیاح دریائے سوات میں سیر کر رہے تھے کہ اچانک سیلابی ریلے میں پھنس گئے اور کافی دیر تک مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن بروقت ریسکیو کا عمل شروع نہ ہونے کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 13 سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ان میں سے 12 کی لاشیں نکال لی گئیں، جبکہ ایک بچے کی تلاش تاحال جاری ہے۔
واقعہ کب پیش آیا، ریسکیو ٹیم کتنی دیر میں پہنچی؟جمعے کے روز سوات میں بارش ہو رہی تھی اور ملک کے مختلف علاقوں سے سیاح سوات پہنچ رہے تھے۔ ان میں ڈسکہ، پنجاب کی ایک فیملی بھی شامل تھی، جبکہ مردان سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: سوات واقعہ افسوسناک قدرتی آفت تھی، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی گئی : بیرسٹر سیف
واقعے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے ایک رپورٹ تیار کی، جس پر چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو بھی بریفنگ دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، ضلعی انتظامیہ کو سیاحوں کے دریائے سوات میں پھنسنے کی اطلاع 10 بج کر 55 منٹ پر اسسٹنٹ کمشنر (یوٹی) کی جانب سے دی گئی، جو معمول کی ڈیوٹی پر تھے۔ بعد ازاں متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر موقع پر پہنچے۔
حکام کے مطابق، ڈسکہ سے آئے سیاح جمعے کی صبح 8 سے 9 بجے کے دوران ہوٹل پہنچے۔ ناشتہ کرنے کے بعد 9 بج کر 37 منٹ پر دریائے سوات کے خشک حصے میں گئے۔ رپورٹ کے مطابق، جب سیاح نیچے اترے تو دریا خشک تھا، لیکن اس دوران اچانک پانی کی سطح بلند ہوئی اور 9 بج کر 45 منٹ پر خطرناک حد تک پہنچ چکی تھی۔
ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق، ریسکیو کو مدد کے لیے پہلی کال 9 بج کر 49 منٹ پر موصول ہوئی، اور ریسکیو ایمبولینس ٹیم 9 بج کر 56 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔ ریسکیو حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجنا ایک غلطی تھی، تاہم اس کی انکوائری ہو رہی ہے کہ یہ غلطی کہاں اور کس سے ہوئی۔
مزید پڑھیں: دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری
ریسکیو حکام کے مطابق یہ ایک ریسکیو آپریشن تھا، لیکن ابتدائی طور پر صرف میڈیکل ٹیم بھیجی گئی، جس کی وجہ سے آپریشن میں تاخیر ہوئی۔ 9 بج کر 56 منٹ پر پہنچنے والی ٹیم نے حالات کا جائزہ لے کر بڑی گاڑی کے لیے کال کی، جس میں جنریٹر، کشتیاں اور دیگر سامان موجود تھا، لیکن جب دوسری ٹیم پہنچی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک انکوائری جاری ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ تاخیر کال رسیور کی غلطی سے ہوئی یا کال کرنے والے کی جانب سے ایمرجنسی کی نوعیت صحیح طور پر بیان نہ کرنے کی وجہ سے۔
سیاح کتنی دیر تک مدد کے لیے انتظار کرتے رہے؟ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق، واقعے میں ریسکیو کے لیے وقت بہت کم تھا، اور 10 بج کر 15 منٹ پر ریسکیو کا عمل شروع کیا گیا، جبکہ 10 بج کر 36 منٹ پر پھنسے ہوئے سیاح بہہ گئے۔
تاہم عینی شاہدین کے مطابق، سیاح ایک گھنٹہ 30 منٹ تک پھنسے رہے اور بروقت امدادی سرگرمیاں شروع نہ کی جا سکیں۔ ان کے مطابق، ریسکیو ٹیم کے پاس بچاؤ کے لیے سامان تک موجود نہیں تھا، اور اہلکار بھی بے بس نظر آئے۔
مائننگ اور تجاوزاتدریائے سوات میں بائی پاس روڈ کے ساتھ زور و شور سے مائننگ ہو رہی تھی، جس کے خلاف مقامی افراد آواز بھی اٹھا رہے تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، دریائے سوات سے ریت اور بجری نکال کر جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے بنائے گئے تھے، جبکہ دریا کے کنارے تجاوزات سے بھی دریا کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔
مزید پڑھیں: سوات حادثہ: ریسکیو ٹیم کس وقت پہنچی؟ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں تفصیل سامنے آگئی
اس حوالے سے چیف سیکریٹری کو سوات میں بریفنگ دی گئی، جس کے بعد دریائے سوات میں مائننگ پر فوری پابندی لگا دی گئی، جبکہ تجاوزات کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ریسکیو کے پاس سامان کی کمیسرکاری ذرائع کے مطابق، سوات واقعے کی ایک بڑی وجہ ریسکیو کے پاس ایسے آپریشن کے لیے سازوسامان کی کمی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس 100 میٹر تک رَسی پھینکنے والی روپ گن موجود ہے، لیکن اسے استعمال نہیں کیا جا سکا کیونکہ دریا کے دوسری طرف کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس پر رسی کو باندھا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر حکام اور متعلقہ اداروں کی کوتاہیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔ واقعے کے بعد بھی متعلقہ انتظامی افسران جائے وقوعہ پر نہیں پہنچے، اور ریسکیو آپریشن کی جگہ صرف میڈیکل ٹیم روانہ کی گئی۔ اب اس واقعے کی مکمل انکوائری ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: دریائے سوات حادثہ، ایک اور بچے کی لاش برآمد، ایک تاحال لاپتا
ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھیجا گیا؟سوات واقعے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے، اور لوگ ہیلی کاپٹر استعمال نہ کرنے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تاہم ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر غور کر رہی تھی، لیکن موسمی خرابی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
انہوں نے واقعے کو قدرتی آفت قرار دیا اور کہا کہ حکومت واقعے کی مکمل انکوائری کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر، 2 ایڈیشنل کمشنر اور ضلعی ایمرجنسی افسر کو معطل کیا جا چکا ہے، جبکہ مزید تفصیلی انکوائری جاری ہے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق، تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا گیا ہے، جبکہ مائننگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا ڈسکہ فیملی ڈوب گئے سانحہ سوات سوات علی امین گنڈا پور