تحریک چلانے کی کوشش کی گئی تو سختی سے روکا جائے گا‘ رانا ثنا اللہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (نمائندہ جسارت) مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دوبارہ کوئی تحریک چلانے کی کوشش کی تو اسے سختی سے روکا جائے گا اور حکومت جو مناسب سمجھے گی، وہی اقدامات کرے گی۔ میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں تقرریوں کے حوالے سے ٹھیک فیصلے ہو رہے ہیں اور ان فیصلوں کے مطابق ہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ججز کی تقرری عمل میں آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ججز مخصوص لابی کی مرضی سے منتخب نہیں ہوئے تو کیا وہ غلط ہو گئے؟ چیف جسٹس کا انتخاب سنیارٹی کی بنیاد پر کیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مسلح گروہوں کے نفوذ کا سرچشمہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی کے بڑے حصے کو افغانستان سے آنے والے گروہوں کے آمد و رفت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی بڑی تعداد میں بدامنی اور دہشت گرد حملوں کی جڑ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے۔ انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کئی برسوں سے افغانستان کی سرزمین سے مختلف مسلح گروہوں کی دراندازی کی قیمت ادا کر رہا ہے، تاہم اسلام آباد اس قابل ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے ہر حملے کا مناسب جواب دے سکے۔
واضح رہے کہ رانا ثنا اللہ اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی سرحدوں سے مختلف گروہوں کی دراندازی کی وجہ سے پاکستان سنگین دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرحدی سطح پر نئے اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی پٹی پر ایک محفوظ بفر زون قائم کرنے کو سرحدی کنٹرول مضبوط کرنے اور مسلح گروہوں کی آمد و رفت کو روکنے کے ممکنہ آپشنز میں سے ایک قرار دیا تھا۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی حکام طالبان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ مسلح گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان، کو اپنی سرزمین پر منظم ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ طالبان ان الزامات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں اور مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے ملٹری کالج پر حملہ اور اسلام آباد میں ہونے والا دھماکہ دونوں افغان عناصر کی شمولیت سے انجام پائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان لفظی اور سیکیورٹی کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ پاکستان اور طالبان کے تعلقات اگست 2021 میں طالبان کی کابل واپسی کے بعد ابتدا میں ایک تدبیراتی ہم آہنگی کے ساتھ شروع ہوئے تھے، لیکن پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے ساتھ یہ تعلقات تیزی سے گہری بداعتمادی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قطر اور ترکی میں دونوں جانب سے کئی مذاکراتی دور ہوئے، مگر اب تک کوئی واضح یا قابلِ ذکر پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔