1000 روپے کا نیا نوٹ، سوشل میڈیا پر زیر گردش دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 1000 روپے کے نئے ڈیزائن کے کرنسی نوٹ جارہی کیے ہیں۔
گزشتہ ماہ 22 جون کو، سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک صارف نے 1000 روپے کے نئے ڈیزائن کے کرنسی نوٹ کی تصویر شیئر کی۔
فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 1000 روپے کے نئے کرنسی نوٹ جاری کیے ہیں، جو جدید ڈیزائن اور جدید ترین سیکیورٹی اور پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔
اسی طرح کے دعوے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر بھی شیئر کیے گئے۔
حقیقت
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے 1000 روپے کا نیا کرنسی نوٹ جاری نہیں کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان نور احمد نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ زیرِ گردش آن لائن دعوے جھوٹے ہیں۔
علاوہ ازیں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کراچی میں ایک نجی بینک کے ترجمان نے تصدیق کی کہ مرکزی بینک کی جانب سے نئے ڈیزائن کیے گئے نوٹ کے اجراء کے حوالے سے فی الحال کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوا۔
جیو فیکٹ چیک نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ کا بھی جائزہ لیا اور اسے کسی نئے کرنسی ڈیزائن سے متعلق کوئی اعلان یا اطلاعات نہیں ملی۔
فیصلہ: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 1000 روپے کا نیا ڈیزائن کردہ کرنسی نوٹ جاری نہیں کیا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 1000 روپے کرنسی نوٹ
پڑھیں:
امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘
اگر یہ کہا جائے کہ سوشل میڈیا پر آپ کا ایک لائیک، شیئر یا کوئی تبصرہ آپ کا امریکی ویزا مسترد کروا سکتا ہے، تو اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کیونکہ امریکی محکمہ خارجہ کی تازہ ترین ہدایات کے مطابق امریکا کا ویزا حاصل کرنے کے لیے اب سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مکمل جانچ پڑتال ہوگی۔
اگر آپ امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو اپنے سوشل میڈیا پر شیئر، لائک اور تبصروں پر غور کیجیے، اور کوشش کریں، کہ ویزا درخواست سے قبل آپ کے سوشل میڈیا اکاونٹس کسی بھی قسم کے نفرت انگیز، تشدد اور انتہاپسندی جیسے مواد سے پاک ہوں۔
امریکا کی جانب سے ویزا درخواست دہندگان، خصوصاً غیر ملکی طلبا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کا عمل سخت کردیا گیا ہے، حالیہ رپورٹسں کے مطابق امریکی سفارتخانوں نے خاص طور پر ایف، ایم (تعلیمی) اور جے (تبادلہ پروگرام) ویزوں کے لیے درخواست دینے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ اپنے پچھلے پانچ سال کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کریں۔
یہ بھی پڑھیں:
اس میں فیس بک، انسٹاگرام، ایکس سابقہ ٹوئٹر، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز شامل ہیں۔ درخواست گزاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کو پبلک رکھیں تاکہ امریکی امیگریشن حکام ان کی مکمل جانچ پڑتال کر سکیں۔
امریکی حکام کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق اس اقدام کا مقصد قومی سلامتی کو یقینی بنانا اور ان افراد کی نشاندہی کرنا ہے جن کی سرگرمیاں یا خیالات امریکا مخالف ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ایسی سوشل میڈیا پوسٹس جو انتہاپسندی، تشدد، نفرت انگیز تقاریر، یا دہشت گرد تنظیموں سے ہمدردی کی عکاسی کریں، جو ویزا مسترد کیے جانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
یہاں تک کہ اگر درخواست دہندہ نے کسی پوسٹ کو شیئر یا لائک بھی کیا ہو، تو اسے مشکوک مواد سمجھا جا سکتا ہے۔ نئی ہدایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ویزا درخواست فارم میں فراہم کردہ معلومات اور سوشل میڈیا پروفائلز کے درمیان تضاد پایا جائے تو بھی ویزا درخواست رد ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:
صرف یہی نہیں اگر سوشل میڈیا اکاونٹس پرائیویٹ ہیں، تو یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کچھ چھپا رہے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت کئی، خاص طور پر پاکستانی طلبا، شدید دباؤ میں ہیں اور اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو محدود کرنے یا پرانی پوسٹس کو حذف کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اظہارِ رائے کی آزادی پر اثر انداز ہو رہا ہے جبکہ دیگر اسے امریکا کی سیکیورٹی پالیسیوں کا جائز حصہ قرار دیتے ہیں۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ ویزا کے خواہشمند افراد اپنی ڈیجیٹل موجودگی کے بارے میں مکمل احتیاط برتیں، سچائی پر مبنی معلومات فراہم کریں اور کسی بھی قسم کے اشتعال انگیز یا سیاسی طور پر حساس مواد سے پرہیز کریں۔
مزید پڑھیں:
امریکا میں پبلک ہیلتھ کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند راولپنڈی کی رہائشی 22 سالہ طالبہ صبا احمد، نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا پاکستانی خواتین کی اکثریت سیکیورٹی، ہراسانی اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹس پرائیویٹ رکھتی ہیں۔
’ہم اپنی تصویریں یا ذاتی معلومات سب کے لیے پبلک نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم اپنے خاندان اور معاشرے کی طرف سے مسلسل نظر رکھی جاتی ہے، اب اگر ویزا پراسیس میں یہ سمجھا جائے کہ پرائیویٹ اکاؤنٹ رکھنے والی لڑکیاں کچھ چھپا رہی ہیں، تو یہ ہمارے لیے دوہرا نقصان ہے۔‘
صبااحمد کے مطابق، پاکستانی طالبات، ان کی طرح، نہ کھل کر اظہار کر سکتی ہیں، نہ اپنے حق میں وضاحت دے سکتی ہیں، یہ بہت دباؤ والی صورت حال ہے، خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں کی لڑکیوں کے لیے، جنہیں پہلے ہی محدود مواقع ملتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے حمزہ شفیق کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ایک حد تک قابل فہم ہے لیکن اس کا دائرہ کار بہت وسیع اور مبہم ہے۔ ’میں نے کبھی کوئی غیر مناسب یا سیاسی پوسٹ نہیں کی لیکن پھر بھی مجھے یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ کہیں کسی دوست کی شیئر کی گئی پوسٹ یا کوئی پرانا طنزیہ تبصرہ میرے ویزا کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔‘
حمزہ نے کہا کہ ہم نوجوان سوشل میڈیا کو صرف اظہار خیال یا ذاتی زندگی کی جھلک کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے ہر لفظ ایک امتحان ہے، جن لوگوں کے اکاؤنٹس پرائیویٹ ہیں ان کے بارے میں یہ سمجھ لینا کہ وہ کچھ چھپا رہے ہیں ایک غیر منصفانہ سوچ ہے کیونکہ پرائیویسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
’دنیا میں بڑے بڑے ادارے آزادی اظہار رائے کے حوالے سے رپورٹس بناتے ہیں، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انہیں اس نئی امریکی پالیسی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، امریکا کی جانب سے پہلے ہی ایڈمیشن، ویزا، اسکالرشپس، تقریباً ہر چیز میں مشکلات بڑھا دی گئی ہیں اور اب یہ نئی ویزا پالیسی مزید مشکلات پیدا کرے گی۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکالرشپس اسلام اباد امریکی ویزا ایڈمیشن پبلک ہیلتھ پرائیویٹ حمزہ شفیق راولپنڈی سوشل میڈیا سیکیورٹی شیئر لائک مشکوک مواد