دشمن پر غلبہ اسلام، شہادت طلبی، بعثت، عاشورا، غدیر اور ایرانی تمدن کی طاقت کا اظہار ہے، قالیباف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ صیہونی ہرگز ہرگز حق و حقیقت کے سامنے ٹھہرے نہیں سکتے، ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کا وعدہ سچا ہے کہ یہ ہرگز نور خدا کو بجھا نہیں سکتے، دشمن جھوٹ، فریب، تمہتوں اور الزامات کا سہارا لیکر کامیاب نہیں ہو سکتے، چاہے ان کافروں کو پسند ہو یا نہ، ہم اس راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے، جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے کہ «هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ» مستقبل اسلام کا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے تہران میں 12 روزہ جنگ کے دوران شہید ہونیوالے کمانڈروں، سپاہیوں، دانشوروں سمیت شہدا کی تکریم و ترحیم کے سلسلے میں منعقد ہونیوالے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہ محرم قیام اور سید الشہداؑ کا مہینہ ہے، میں شہدا کے خاندانوں، عزیز و اقارب، دوستوں اور پوری ملت کو تسلیت عرض کرتا ہوں، یہ شہدا نہ صرف ملک و قوم کی حفاظت، دفاع، سلامتی کے شہدا ہیں بلکہ یہ مقاومت کے نئے مرحلے کے شہدا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شہدا ہمارے تہذیب و تمدن کے محافظین کا ہراول دستہ ہیں، صیہونی رجیم کے ہاتھوں ان کا خون بہا ہے، ہم سمجھتے ہیں ہم نہ صرف اپنا راستہ جاری رکھیں گے، اس پر قائم رہیں گے بلکہ آئندہ کے لئے بھی آمادہ رہینگے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان شہدا نے جوانی سے ہی جہاد کی راہ کو اپنایا، اپنا خون، اپنی جان، اپنی زندگی، اپنی اولاد، اپنا خاندان، اپنے بیوی بچے، سب کچھ اس راہ میں قربان کیا، ہم نصرت خداوندی سے اس عزم پر قائم ہیں کہ اپنے شہدا، اپنے آئمہؑ، رہبر معظم انقلاب اسلامی کیساتھ کھڑے رہیں گے۔
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ صیہونی ہرگز ہرگز حق و حقیقت کے سامنے ٹھہرے نہیں سکتے، ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کا وعدہ سچا ہے کہ یہ ہرگز نور خدا کو بجھا نہیں سکتے، دشمن جھوٹ، فریب، تمہتوں اور الزامات کا سہارا لیکر کامیاب نہیں ہو سکتا، چاہے ان کافروں کو پسند ہو یا نہ ہو، ہم اس راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے، جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے کہ «هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ» مستقبل اسلام کا ہے۔ ان شہدا نے جس طرح اپنی جانیں قربان کیں، خدا سے عہد و پیمان کو نبھایا، یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاشک و شبہ انہوں نے جو قربانی دی اس کی جزا، خدا، جنت اور جوار اہلبیتؑ ہے، جو لوگ شہید ہوئے شہادت ان کا حق تھا، یہ ان شہدا کے پسمندگان کے لئے گراں ہے، یہ راستہ کٹھن ہے لیکن ہماری ملت اس پر قائم و دائم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے ملت عزیز یہ کامیابی ہمارے جوانوں، افسروں، سائنسدانوں، دانشوروں، طلبہ کی قربانی کا نتیجہ ہے، ان سب نے اپنے اپنے شعبے میں محنت کی، دن رات ایک کردیا، تاکہ ملت سرفراز رہے، اسی طرح ہماری قوم کا ہر گروہ، ہر مسلک اور ہر طبقہ سربکف ہے اور میدان میں موجود ہے، یہ وحدت اور اسنجام ملی کا مطہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے مذاکرات کے دوران خیانت اور بددیانتی کرتے ہوئے ہمارے ملک پر حملہ کیا، لیکن ہماری مسلح افواج اور قوم نے متحد اور منسجم ہوکر اس کا جواب دیا، دشمن نے اس کو دیکھا کہ ہم ایک پیج پر ہیں اور دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری مسلح افواج کی 40 سالہ کوشش کا نتیجہ ہے کہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر موجود دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ آئرن ڈوم ایک مضبوط دفاع ہے، لیکن ہم نے اسے ہوا میں اڑا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے دیکھا کہ ہماری بابصیرت لیڈرشپ اور کمانڈ نے دشمن کے سر پر کیا افتاد گرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے دوسرے ہی دن ہم نے جنوب سے شمال تک دشمن کو جس جگہ چاہا نشانہ بنایا، پہلی ہی رات 350 ڈرونز اور 150 میزائل مار کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اور آئرن دوم کو ڈھیر کر دیا، اس کے بعد حتیٰ کہ صرف ایک ہی میزائل مار کر بئر السبع کے مضبوط دفاعی مورچے کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ صیہونی رجیم اپنے بل بوتے پر ایران کے مقابل نہیں آسکتی، نہ تھہر سکتی ہے، نہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے، یہ مغربی اتحادی ہیں جنہوں نے اس ناجائز ریاست کو سہارا دیکر باقی رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے دروان صیہونی رجیم کی شکست اور تباہی کو دیکھتے ہوئے امریکہ براہ راست جنگ میں کود پڑا، لیکن ہم نے امریکہ کو بھی چند گھنٹون میں جواب دیا، اس کے بعد وہ فوری طور جنگ بندی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے، دشمن پر یہ غلبہ اسلامی نظام، شہادت، بعثت، عاشورا، غدیر اور ایرانی تمدن کی طاقت کا اظہار ہے، آج ہم رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان پر متحد ہیں، دشمن ایران کا ایک ٹکڑا نھی جدا نہیں کر سکتے، یقین رکھیں یہ راستہ عطمت اور کامیابی سے مملو ہے، ہم نے پہلے بھی ہر حملے کا جواب دیا ہے، آئندہ بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ نہیں سکتے انہوں نے کہ قرا ن رہیں گے لیکن ہم ہیں کہ کہا کہ
پڑھیں:
عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی
اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے 23 ماہ اور 23 دن اور 65 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد جنگ بندی کا ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو نے وائٹ ہاوس کے دباو پر قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی سے دوحا پر حملے کے دوران ایک قطری شہری کی ہلاکت پر معافی بھی مانگی۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ میں امن کی بحالی کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا جو اکثر عرب اور اسلامی ممالک کی توجہ کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی کم از کم پانچ سالہ نگران انتظامیہ کے بعد متحدہ فلسطینی ریاست تشکیل پانے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی دنیا میں اب تک سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مبصرین کے لیے اہم بات اس منصوبے کے نکات کم ہو کر 20 رہ جانا ہے۔ دراصل ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل سے متعلق شق کو تبدیل کر کے "سیاسی منظرنامے" کے حصول کے لیے گفتگو انجام دینا کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کی خاطر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اپنی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے پر مبنی شق ختم ہو جانے کے بارے میں مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ خطے کی جن حکومتوں نے ٹرمپ منصوبے کی حمایت کی ہے وہ عملی طور پر خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں اور انہوں نے زیادہ تر اسرائیل کے سیاسی اہداف آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
ان حکومتوں نے مختلف قسم کے اقتصادی اور سیکورٹی بہانوں کے ذریعے فلسطینی قوم کے مفادات کو نظرانداز کیا ہے اور غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ یہ انداز نہ صرف فلسطین کاز سے غداری ہے بلکہ ایسی رژیم سے واضح اظہار یکجہتی بھی ہے جو اپنی بقا کو بحران اور جارحیت جاری رکھنے میں دیکھتی ہے۔ صیہونی وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات ختم ہوتے ہی نیتن یاہو نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: "میں نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بالکل اجازت نہیں دی اور اس معاہدے میں بھی ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی سخت مخالفت کی ہے اور امریکی صدر اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔" صیہونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق امریکہ نے دونوں بنیادی ایشوز یعنی غزہ سے اسرائیل کا فوجی انخلاء اور حماس کے غیر مسلح ہونے کو کاغذ پر لانے کی کوشش کی ہے لیکن جو نسخہ گذشتہ ہفتے شریک عرب اور اسلامی ممالک کو دیا گیا ہے اس میں ان ایشوز کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
البتہ پیر کے دن اس معاہدے کا نیا نسخہ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے: "اسرائیلی فوجیں طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی۔" نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اس معاہدے میں جو نقشہ جاری کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ جانے کے باوجود تمام یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی خاطر غزہ کے وسیع علاقے میں جہاں بھی چاہیں موجود رہ سکتی ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عرب اور اسلامی ممالک پر مشتمل "بین الاقوامی فوج" غزہ میں تعیینات ہونے کے لیے تیار نہیں ہو جاتی اسرائیلی فوج جہاں ہے وہاں موجود رہے گی۔ اسی طرح تل ابیب کے مدنظر نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پوری پٹی کے اردگرد ایک سیکورٹی بفر زون قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی دراصل اسرائیل کا مطالبہ تھا جس کا مقصد طوفان الاقصی جیسا آپریشن دوبارہ دہرائے جانے سے روکنا ہے۔
اس معاہدے کا اہم حصہ جنگ بندی کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سربراہی میں غزہ پر نگران انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہونا ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر نے 2001ء میں افغانستان اور 2003ء میں عراق کی لاحاصل جنگوں کے لیے فوج بھیجی تھی لہذا وہ غزہ میں امن منصوبے کے اجرا کے لیے مناسب شخص نہیں ہے۔ برطانوی اخبار گارجین اور صیہونی اخبار ہارٹز کی جانب سے 21 صفحات پر مشتمل اس معاہدے کی دستاویز شائع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام بین الاقوامی عہدیداروں کے سپرد کیا جائے گا اور فلسطینیوں کو بنیادی عہدے نہیں دیے جائیں گے۔ اس دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ انتظامیہ غزہ کی تعمیر نو کی بھی ذمہ دار ہو گی اور اس کام کے لیے وہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
اخبار اکونومسٹ کے مطابق اس منصوبے میں اصل رکاوٹ حماس کا موقف ہے۔ حماس کے لیے ابتدائی طور پر یرغمالیوں کو آزاد کر دینا ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ اس کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا واحد ہتھکنڈہ یہی یرغمالی ہیں۔ حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں جنگ شدت اختیار کر جانے کے باعث اس کا تمام یرغمالیوں سے رابطہ بھی برقرار نہیں ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملہ نہیں کرے گا۔ حماس اپنے ہتھیاروں کو "مزاحمت" پر مبنی اپنے تشخص کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے اور غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہے۔ مزید برآں، اب تک کسی ملک نے غزہ کے لیے بین الاقوامی فوج کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لہذا اس منصوبے پر عملدرآمد فی الحال دور از امکان دکھائی دیتا ہے۔