لاہور کے فارم ہاؤس کا شیر دیوار پھلانگ کر گلی میں آگیا، حملے میں 2 بچوں سمیت 3 زخمی
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
لاہور کے علاقے جوہرٹاؤن میں واقع شاہ دی کھوئی کے فارم ہاؤس میں موجود شیر دیوار پھلانگ کر گلی میں کودا اور حملہ کردیا جس میں 2 بچوں سمیت 3 افراد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جوہر ٹاؤن میں قائم فارم ہاؤس میں موجود شیر دیوار پھلانگ کر گلی میں کودا اور پھر راہ گیر خاتون و دو بچوں پر حملہ کیا۔
حملے کی زد میں آنے والے دو بچوں کی حالت تشویشناک ہے جبکہ خاتون کی حالت خطرے سے باہر ہے، تینوں زخمیوں کو طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق فارم ہاؤس میں رکھے شیر کا جنگلہ کھلا رہ گیا تھا۔
دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کا افسوسناک واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وائلڈ لائف حکام سے رابطے کی ہدایت کی جس پر پولیس نے رابطہ کیا تو وائلڈ لائف حکام نے پالتو شیر کو قابو کر لیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز کا ذمہ داران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اولین ترجیح ہے، کسی بھی فرد کو شہریوں کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی کے شوق شہریوں کی جان کے لیے خطرہ بنے ہرگز قبول نہیں۔
ترجمان محکمہ وائلڈ لائف اینڈ پارکس نے بتایا ہے کہ لاہور کے علاقہ شاہ دی کھوئی میں ملک اعظم مرتضی عرف شانی نامی ایک شخص نے غیر قانونی اور بنا لائسنس شیر کو اپنے ڈیرے پر رکھا ہوا تھا۔
وائلڈ لائف حکام کے مطابق اچانک شیر ڈیرے سے باہر آگیا، جس کو وہ لیکر موقع پر فرار ہوگیا ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کی اسپیشل ٹیمیں شیر کی برآمدگی اور اس کے مالک کی گرفتاری کے لیے شاہ دی کھوئی اور دیگر مقامات پر چھاپے مار رہی ہیں جبکہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ترجمان وائلڈ لائف آیند پارکس پنجاب نے مزید بتایا کہ نئے قوانین کے مطابق کوئی بھی شخص شیر کو بنا لائسنس، مطلوبہ پنجرے کے سائز اور دیگر ایس او پیز پر عمل کیے بغیر نہیں رکھ سکتا، غیر قانونی اور بغیر لائسنس شیر کو رکھنا ناقابل ضمانت جرم ہے اور اس کی سزا سات سال قید جبکہ 50 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
ترجمان نے اپیل کی کہ عوام الناس سے اپنے اردگرد کسی کے پاس شیر موجود ہے تو اسکی اطلاع محکمہ وائلڈ لائف پنجاب کی ہیلپ لائن 1107 پر فوری طور پر دیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائلڈ لائف فارم ہاؤس کے مطابق شیر کو
پڑھیں:
فائرنگ و دیگر واقعات میں بچوں سمیت 14افراد ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)شہر قائد میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مختلف پرتشدد اور المناک واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق جبکہ پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ فائرنگ، گھریلو جھگڑے، ٹریفک حادثات، کرنٹ لگنے، جھلسنے، چھری کے وار، اور پراسرار حالات میں لاشیں ملنے کے واقعات نے شہر میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے۔ پولیس نے تمام واقعات کی الگ الگ تحقیقات شروع کر دی ہیں۔اورنگی ٹاؤن مومن آباد میں خاندانی جھگڑے کے دوران داماد کی فائرنگ سے اس کے سسر اور دو دیگر رشتہ دار جاں بحق ہو گئے۔ مقتولین کی شناخت 55 سالہ غوث الدین، 45 سالہ گل بخت اور 35 سالہ امین کے ناموں سے ہوئی ہے۔ پولیس نے مقتول کی بیٹی کے سسر اور ایک رشتہ دار کو گرفتار کرلیا، جبکہ مرکزی ملزمان حمید اور اس کا بھائی تاحال فرار ہیں۔رزاق آباد عبداللہ گوٹھ میں 3 سالہ بچہ گاربیج ٹرک کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گیا۔ پولیس نے ٹرک قبضے میں لے کر ڈرائیور کی تلاش شروع کر دی ہے۔ کورنگی ڈھائی نمبر پل کے قریب 25 سالہ زوہیب نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہوا، جسے ریسکیو عملے نے زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا تاہم وہ دم توڑ گیا۔پاک کالونی تھانے کی حدود میں 8 سالہ معیز ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو کر دوران علاج چل بسا۔ شاہراہ فیصل پر کرنٹ لگنے سے 18 سالہ نوجوان جاں بحق ہو گیا۔ اورنگی ٹاؤن قبرستان کے قریب 26 سالہ سیما کی لاش ملی جسے پوسٹ مارٹم کے لیے منتقل کیا گیا۔ ماڑی پور سے جھلسنے والی 36 سالہ فائزہ دوران علاج جاں بحق ہوئی۔ کورنگی K ایریا، کورنگی نمبر 5، گلستان جوہر اور ڈیفنس فیز 6 سے 4 نامعلوم افراد کی لاشیں ملی ہیں، جن کی شناخت اور موت کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔فائرنگ اور چھری کے حملوں میں پانچ افراد زخمی ہوئے جن میں کلفٹن میں 48 سالہ بشیر، اختر کالونی میں ڈکیتی کے دوران 20 سالہ عبدالوحید، سائٹ ایریا میں 21 سالہ شاہ زیب، کریم آباد میں 24 سالہ نصیب زادہ، اور نیو کراچی میں شبیر حسین شامل ہیں۔پولیس حکام نے کہا ہے کہ ہر واقعے کی گہرائی سے تفتیش کی جا رہی ہے، عینی شاہدین کے بیانات اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ شہریوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ کسی بھی معلومات کی صورت میں فوری اطلاع دیں تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کارروائی کر سکیں۔