تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح بلند، اسپل ویز کھولنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
ملک کے بالائی علاقوں میں لگاتار موسلادھار بارشوں کے باعث تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہوگئی، جس پر حکام نے ڈیم کے اسپل ویز کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔
اسپل ویز کے راستوں میں رہنے والے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کر دی گئی۔ تربیلا ڈیم اسپل وے آپریشن کے باعث دریا سندھ میں طغیانی امکان ہے۔
ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق اسپل ویز کھلنے کے باعث پانی کے بہاؤ میں 2لاکھ 60 ہزار سے 2 لاکھ 70 ہزار کیوسک تک اضافے کا امکان ہے۔
دریائے سندھ کے بہاؤ میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر ملحقہ علاقوں کے مکین آبی گزرگاہوں کے قریب جانے سے گریز کریں۔ دریائے سندھ کے قریبی سیاحتی مقامات پر سیر و تفریح کے دوران محتاط رہیں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
نوشہرہ، صوابی اور ہری پور میں دریا سندھ کنارے آبادیوں کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا جبکہ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، سول ڈیفنس اور دیگر متعلقہ ادارے کو حفاظتی اقدامات کی ہدایات جاری کر دی گئی۔
مقامی آبادی کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور دریاوں، آبی گزرگاہوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔