پاک فوج کی کیپٹن ایمان درانی سوشل میڈیا پر چھاگئیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد:پاک فوج کی خاتون کیپٹن سوشل میڈیا پر چھاگئیں،خاتون افسر کی نہایت جوشیلے انداز میں خطاب نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے ، ان کا یہ خطاب سوشل میڈیا پلیٹ فارم’ ایکس‘ پر ٹاپ ٹرینڈ کے ساتھ ہر صارف کی اسکرین کی زینت بنا ہوا ہے اور سوشل میڈیا صارفین اس تقریر پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔یہ خطاب پاکستان آرمی کی کیپٹن ایمان درانی کا ہے جو ایک تعلیمی ادارے میں طلبا سے خطاب کررہی ہیں جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہا ہے۔
کیپٹن ایمان درانی خطاب میں طلبا کو بتا رہی ہیں کہ ملک کی سلامتی کے لیے فوج کی کوششیں قابل ستائش ہیں اور پاکستان کی فوج ملکی مفاد اور عوام کی حفاظت کے لیے جو کچھ کرتی ہے وہ پبلک انٹرسٹ میں کرتی ہے۔کیپٹن ایمان درانی نے اپنے خطاب میں طلبا کو مزید بتایا کہ آرمی کے اسٹاف کالج میں ایک نہایت اہم کورس کروایا جاتا ہے جس میں ایک کتاب میں 1965 اور 1971 کی جنگوں سے متعلق پڑھایا جاتا ہے اور اس کتاب میں آرمی نے اپنی تعریفیں نہیں کی ہیں بلکہ خود احتسابی کی بات کی ہے جو کہ پاکستان آرمی کے ہر افسر نے پڑھی ہے۔
کیپٹن ایمان درانی نے مزید کہا کہ خود احتسابی آرمی کے ادارے کا بنیادی جزو ہے۔کیپٹن ایمان درانی نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتی کہ آرمی جو کچھ بھی کرتی ہے ٹھیک کرتی ہے پر جو بھی کرتی ہے پبلک انٹرسٹ میں کرتی ہے ، کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک نے ہمارے لیے کیا کیا؟ ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ یہ پوچھیں کہ ہم نے ملک کے لیے کیا کیا ؟انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف آرمی کی وجہ سے نہیں کھڑے ہیں بلکہ اداروں کی اجتماعی کوششوں کی وجہ سے کھڑے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر شمع جونیجو نے بھی کیپٹن ایمان کے خطاب کو سراہا اور کہا کہ مجھے بابا ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ یہ مت کہنا کہ ملک نے تمہیں کیا دیا ہے بلکہ بڑی ہوکے اپنے بچوں کو یہ بتانا کہ تم نے اپنے ملک کو کیا دیا ہے،اس بچی نے ایک بہت ہی خوبصورت بات کی ہے، جسے صرف اس وجہ سے شیئر نہ کرنا ناانصافی ہے کہ اس نے وردی پہنی ہوئی ہے تاہم کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ فوج کو شہریوں کے اعتماد میں اضافے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کیپٹن ایمان درانی سوشل میڈیا پر کرتی ہے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.6 ملین جب کہ پاکستان میں تقریباً 135,000 اموات ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ دریائے گنگا اور سندھ کی آلودگی، زمینی پانی کی قلت اور زراعت میں کیمیکل کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ماحولیاتی تعاون کو محدود کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا ایک نیا رابطہ پل ثابت ہو سکتا ہے۔
2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔
ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔
ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔