سانحہ سوات کے وقت ائیر ایمبولینس وزرا کے اہلخانہ کیلئے استعمال ہوئی، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاحوں کو بچانے کے لیے ائیر ایمبولینس نہیں تھی، اگر یہ اتنے نالائق ہیں تو ائیر فورس، نیوی سے مدد لے لیتے، کیا ریسکیو 1122 میں غوطہ خور نہیں تھے۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ائیر ایمبولینس بنائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے سوات میں موجود نہیں تھی، سنا ہے ائیر ایمبولینس شندور پولو فیسٹول میں وزراء کے اہلخانہ کو خدمات دینے میں استعمال ہوئی۔ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاحوں کو بچانے کے لیے ائیر ایمبولینس نہیں تھی، اگر یہ اتنے نالائق ہیں تو ائیر فورس، نیوی سے مدد لے لیتے، کیا ریسکیو 1122 میں غوطہ خور نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی 13 سال سے حکومت میں ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے، جس نے تجاوزات کی اجازت دی پہلے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، پہلے پیسے لے کر تجاوزات قائم کیں، اب لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبائی حکومت میں شامل لوگوں کی تجاوزات گرائی گئیں تو پھر یہ تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوگا۔ قبل ازیں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی پشاور صدر میں نویں محرم الحرام کے مرکزی ماتمی جلوس میں گئے اور یکجہتی کا اظہار کیا، پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ابرار سعید سواتی اور اہل تشیع کے اکابرین بھی ان کے ساتھ تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ائیر ایمبولینس فیصل کریم کنڈی نے کہا
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔